مضر صحت سافٹ ڈرنکس اتنے پرکشش کیوں؟


موجودہ دور میں مشروب کے حوالے سے سب سے معروف اور بے پناہ تعداد میں پیے جانے والے ـــــسافٹ ڈرنکس ہر عمر کے افراد میں مقبول عام ہیں۔ کوئی بھی محفلـ، میٹنگ ، فنکشن یا دیگر تقریبات ہوں،سافٹ ڈرنکس کے بغیر مذکورہ مجمعوں کو ویران محسوس کیا جاتا ہے۔ مگر چونکہ ان ڈرنکس کا تعلق اپنے ایجاد کے حوالے سے مغرب سے ہے اس لیے ہر دور میں بالخصوص ابتدائی دور میں تنقید کا نشانہ رہی ہیں۔سافٹ ڈرنکس کی تاریخ پر اگر ایک مختصر سی نظر ڈالی جائے تو اس کا ابتدائی زمانہ سترہویں صدی کا اخیر پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلی باقاعدہ طریقے سے تشہیری انداز میں سافٹ ڈرنک کا تعارف اسی صدی میں کروایا گیااور اس اثنا میں سن 1676میں پیرس میں ایک کمپنی (فرنچ)Compagnie de Limonadiersیعنی Company of Limondiers وجود میں آئی۔ بتدریج ترقی کرتے ہوئے سن 1886 میں اٹلانٹا کے ایک فارماسسٹ جان پیمبرٹن John Pembertonنے پہلی کولا ڈرنک کوکا کولا ایجاد کی۔ (ملاحظہ کیا جا سکتا ہے بریٹانیکا)

ان کے اجزائے ترکیبی پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، شوگر، ایسڈ، جوسز، اور مختلف قسم کے فلیورز ہوتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ ڈرنکس کے اندر اتییجیت(جوش بھرا )effervescentاور ترش ذائقہ دیتے ہیں۔ effervescentیا اتیجیت ڈرنکس کو کھولتے وقت اس میں سے گیس کے اخراج کو کہتے ہیں۔ جو ساتھ ہی بلبلے fizzبھی تشکیل دیتی ہے۔ اپنے اجزائے ترکیبی کے بے حد عمدہ ذائقے کے ساتھ مذکورہ ڈرنکس پوری دنیا میں ایک بہت بڑی انڈسٹری کے طور پر ابھری ہے جس کا اندازا یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 2009میں گلوبل سطح پر ان ڈرنکس کا استعمال 650ارب لٹر تھا جو کہ محض آٹھ سالوں میں بڑھ کر 906ارب لٹر تک پہنچ گیا ہے۔ اور اس کی گلوبل ویلیو تقریبا 970ارب امریکی ڈالرز ہیں۔ ان سب حقائق کے ساتھ جہاں ان ڈرنکس کی طلب میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے وہاں پچھلے کچھ عرصے سے صحت پر ان ڈرنکس کے مضر اثرات بھی زیر بحث لائے جا رہے ہیں۔ جن کا ذکر ہم مندرجہ ذیل سطور میں کریں گے۔

اس میں کو ئی شک نہیں کہ سافٹ ڈرنکس کا مستقل استعمال انسان کی صحت کو مختلف قسم کی دائمی امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر وہ شخص جو روزانہ ایک سے دو گلاس سافٹ ڈرنکس پیتا ہے وہ ٹائپ2ذیابیطس اور پیٹ کے مو ٹاپہ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ موٹاپہ اور دل کی بیماریوں کا آپس میں ایک مضبوط تعلق پایا جاتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ساویتا جین نے یہی بات دہرائی کہ شوگر سے بھرپور ان ڈرنکس کا مستقل استعمال وزن میں اضافہ اور بالآ خر دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان شوگری ڈرنکس کا استعمال دانتوں کے سڑنے کا باعث بھی بنتاہے اس لیے ان ڈرنکس کا استعمال سٹراStrawکے ساتھ تجویز کیا جاتا ہے ۔ مزید یہ بھی تجویز کیا جا رہا ہے کی سگریٹ پیک پر موجود مضر صحت ہونے کے انتباہ کی طرز پر ان ڈرنکس پر بھی اس قسم کا انتباہ عوام الناس کے لیے ہونا چاہیے تا کہ لوگ ان باتوں کو محض سنی سنائی باتوں سے ہٹ کر اس بات کو ایک ریاستی صلاح سمجھیں۔

انگلینڈ کے پبلک ہیلتھ انگلینڈ سروے کے مطابق وہاں کے چار سال سے دس سال کے بچے شوگر کی اسسفارش کردہ مقدار (یعنی چھ شوگر ٹی سپونز)سے دگنی شوگر استعمال کر رہے ہیں جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے طے کی ہیں۔جس کی بنیادی وجہ شوگری سافٹ ڈرنکس ہی قرار پائی ہے ۔ اسی کے مد نظر پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے بچوں کے لیے مجوزہ مقدار استعمال کرنے کی سفارش کی ہے۔ ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برٹش ڈینٹل جرنل نے کچھ عرصہ قبل یہ بات ثابت کی ہے کہ بچوں کے دانتوں کی سڑاہٹ کی سب سے بڑی وجہ یہی کاربو نیٹڈ ڈرنکس ہی ہیں۔ ٹفٹس یونیورسٹی آف بوسٹں کے ریسرچرز کے مطابق وہ لوگ جو روزانہ کی بنیاد پر ان ڈرنکس کا استعمال زیادہ کرتے ہیں ان کی بون منرل ڈینسٹی چار فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اور بون منرل ڈینسٹی کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جتنی کم یہ ڈینسٹی ہو گی اتنے ہی ہڈیوں کے فریکچر کے چانسز زیادہ ہوں گے۔

2015کی ٹیلی گراف انگلینڈ کی رپورٹ کے مطابق سائنٹسٹس نے ایک وارننگ جاری کی ہے جس کے مطابق یہ سافٹ ڈرنکس سالانہ 184000بالغ افراد کی اموات کا باعث بن رہی ہیں۔ مزید یہ کہ یہی ڈرنکس مختلف قسم کے کینسر باعث بن رہی ہے۔ ایک ڈرنک روزانہ پینے سے کینسر میں مبتلا ہونے کے چانسز 40 فیصد بڑھ جاتے ہیں ۔ 1990سے 2000 کے درمیان لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ان شوگری ڈرنکس کی وجہ سے ذیابیطس کے130000 مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈنمارک میں ساٹھ ہزارحاملہ خواتین پر کی گئی تحقیق کے مطابق جو خواتین ان ڈرنکس کا استعمال زیادہ کرتی ہیں۔ وہ بچوں کو پری میچیور برتھ دینے کا باعث بنتی ہیں۔ انڈیپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے چھ سالوں تک پنتالیس سال سے زائد العمر افراد پر تحقیق کی اور یہ اخذ کیا کہ وہ افراد جو روزانہ 24اونس کم ازکم ڈرنکس کا استعمال کر رہے ہیں ان میں دل کی بیماریوں کی وجہ سے اموات کے مواقع دگنے ہو جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا سطور سے اس بات کا بخوبی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی اشیا جن کہ ہم اپنی زندگی کا بنیادی حصہ بنا چکے ہیں کس طرح اندر ہی اندر ہمیں کھاتی جار ہی ہے۔ اور آخر کیا وجہ ہے کی بارہا ان باتوں کے علم میں ہوتے ہوئے بھی ان ڈرنکس کا استعمال ترک کرنا مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھی جاتی ہے کہ شوگر کا زیادہ استعمال بھی ایک اہم ایڈکشن (لت) سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایڈکشن اس کو ترک کرنے پر ہمیں ودڈرال سمپٹم میں مبتلا کر دیتے ہیں یعنی جب ہم ایسی لت کو ترک کرنا شروع کرتے ہیں تو تھکاوٹ، موڈ کا ڈھیلا رہنا، اور اس طرح کی دیگر علامات ہمیں ان ڈرنکس کی طرف دوبارہ متوجہ کرتی ہے۔ سادہ لفظوں میں ان سافٹ ڈرنکس کو ایک ہلکی قسم کا نشہ سمجھا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ ان ڈرنکس میں کیفین کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے جو بہرحال ایک ایڈکشن ہی سمجھی جاتی ہے ۔ اس کو بھی اچانک ترک کرنے پر بچہ ہو یا بڑا اپنے آپ کو کسی کمی کا شکار محسوس کرتا ہے اور اس چیز کی طلب کی طرف کشش محسوس کرتاہے۔ ایسی صورتحال میں ان ڈرنکس کو اچانک ترک کرنا مشکل سمجھا جاتا ہے مگر ہاں اس کے استعمال میں بتدریج کمی کر کے ہم مکمل ترک استعمال کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔

اب مضمون کے آخر میں ریاستی سطح پر لیے گئے ان اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جو ان سافٹ ڈرنکس کے استعمال میں حوصلہ شکنی پیدا کر سکے۔ پیداواری اور استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے شوگری ڈرنک ٹیکس متعارف کرایا گیا۔ جس کو حال ہی میں2011 میں فن لینڈ اور ہنگری ، 2012میں فرانس نے عائد کیا ہے۔ 2014میں میکسیکو دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ان شوگری ڈرنکس پر ٹیکس عائد کیا ۔ اس سال بارکلے ، کیلیفورنیا امریکہ کا پہلا شہر تھا جس نے شوگری ڈرنکس پر ٹیکس کو منظور کیا۔ 2015میں روس کے علاقے وولوگڈا میں کیفینیٹڈ سافٹ ڈرنکس کو بین کر دیا گیا۔ 2016 میں جنوبی افریقہ نے 2.1 فیصد فی گرام شوگر ٹیکس عائد کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر ممالک یعنی کل 26ممالک میں اس ٹیکس کا متعارف کرایا گیاہے۔

پبلک فوڈ انگلینڈ نے فوڈ انڈسٹری کے ساتھ اس پر کام کا آغاز کیا کہ 2020 تک بچوں کی خوراک سے شوگر کی مقدار 20 فیصد کم کی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس قسم کے ٹیکس عاید کرنے کے اقدامات ان ڈرنکس کی طلب پر اثر انداز ہوں گے؟ جواب یہ ہے کہ میلبورن میں ان ڈرنکس کی فروخت کی قیمت بڑھانے کے بعد ان کی طلب 27.5%کم ہو گئی تھی۔اس کے علاوہ دیگر یورپین ممالک میں ان ڈرنکس کو بین کرنے جیسے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے۔

جہاں تک بات ملک عزیز پاکستان کی ہے۔ 2017 کے آغاز میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے تمام تعلیمی اداروں میں ان ڈرنکس کو مکمل بین کر دیا گیا ہے جو کہ انتہائی خوش آیند بات ہے۔ بہرحال اس بات کی امید بھی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جس سے ہر طبقہ کے فراد کو اس کے مضر اثرات سے بچایا جا سکے۔ اور اختتام پر ایک بات کہنا انتہائی ناگزیر ہے کہ ریاستی سطح پر اقدامات اپنی جگہ مگر ہم انفرادی طور پر ان ڈرنکس سے پرہیز کر کے اپنے اور اپنے پیاروں کوان نقصانا ت سے بچا سکتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).