یورپ میں ہمارے حالات اور پاکستان میں آپ کے خیالات


قصہ کچھ یوں ہے کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے باسی اپنے آپ کو ”شہری“ یعنی جدت پسند اور گاؤں کے لوگوں کو ”پینڈو“ یعنی قدامت پسند تصور کرتے ہیں۔ پھر ایک ہی شہر میں رہنے والوں کے بھی مختلف دراجات ہوتے ہیں، جیسے “ڈیفنس“ میں رہنے والے اپنے آپ کو اندرون لاہور والوں سے زیادہ ماڈرن تصور کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح پینڈوؤں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں مثلاً لاہور کے مضافات میں رہنے والا شخص ” پینڈہ“ہوتا ہے شہرسے تھوڑا دور نکل جائے تو ”پینڈو“ اور اگر آپ بہت ہی دور رھتے ہیں اور کوئی بڑا شہر آپ کے قریب نہیں لگتا تو ”شدید پینڈو“ کے زمرے میں آتے ہیں۔

یہی اصول کراچی اور پشاور کے مضافاتی علاقوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ہم فاٹا (موجودہ خیبرپختونخوا) کے قبائلی پاکستان کے تمام بڑے شہروں سے کافی دور رہتے ہیں۔ یہاں کسی بڑے شہر کا بھی وجود بھی نہیں اور رہی سہی کسر افغانستان کے ساتھ سرحد پوری کر دیتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے جیسے یہ پاک افغان ڈیورنڈلائن ”برگر“ کے اوپر“چیز“ کی اکسٹرا ٹاپنگ ہو۔ یعنی ہم ”شدید پینڈو“کی بھی اوپر کی قسم بن جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ریاست ہمیشہ حسب ضرورت اور حسب ذائقہ ہمیں استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔ یعنی جب جہاد کی ضرورت ہو تو ہم سا کوئی مومن نہیں، عین اسی کے برعکس جب مزاح کی ضرورت پڑھ جائے تو ہم سے بڑھ کر کوئی لطیفہ نہیں۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود مجھے ہمیشہ اپنے “شدید پینڈو“ہونے پر فخر محسوس ہوا ہے کیونکہ عمومی طور پرانکو سادہ لوح انسان کے طورپر تسلیم کیا جاتا ہے اور بقول شاعر،
سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے

لہذا تمہید کو مدنظررکھتے ہوئے، فاٹا سے تعلق رکھنے والے میرے جیسے شدید ترین پینڈو کو یورپ آنے سے پہلے خوشی کی بجائے جہاں ایک طرف غم اور گھبراہٹ کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ہم جیسوں کے لئے ائیرپورٹ کے لوازمات پورے کرنا اور یورپ میں صحیح سلامت اپنی جگہ پہنچنا کسی سائنس سے کم نہیں۔ وہی دوسری طرف ویزالگنے کے بعد ہمارا امیج لوگوں کی نظر میں یکسر بدل جاتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے جیسے ایران اور سعودی عرب میں راتوں رات برقعہ سے بکنی کا انقلاب آگیا ہو۔ اللہ کی شان کہ میرے جیسا شدید پینڈو شخص اچانک لوگوں کی نظر میں ماڈرن ہو جاتا ہے۔ بیگم جو ہر وقت ہماری بوریت کا رونا روتی اور بارہا یہ طعنہ دیتی کہ شکر کرو آپ جیسے بیکار شخص سے شادی کے لئے ہاں کی تھی ورنہ بھلا تم سے کون شادی کرتا، ویزا کے حصول کے بعد ٹھیک وہی بیگم، جی ہاں ٹھیک وہی ایک بیگم یکایک اب ہمارے رومانٹک ہونے پرخدشات کا اظہار کرتی تھیں (اطلاع عام : مذکورہ بیکارشخص والا طعنہ اگر کبھی آپ کے کانوں سے بھی گزرا ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ طعنہ بابا نیلسں مینڈلا، آئینسٹائن بابو، بل گیٹس چاچا جیسے تمام کامیاب لوگوں کوبارہا مل چکاہے، تو پھرآپ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں)

ان تمام شکوک او شبھات کے ماحول میں ہم پاکستان سے روانہ ہوکرابوظہبی سے ہوتے ہوئے فرنکفرٹ ائیرپورٹ پرجوں ہی اترے، تو چائے کی شدید طلب محسوس ہوئی۔ اس ماڈرن ماحول کو دیکھ کر یونیورسٹی کا زمانہ یاد آیا جب میرے جیسے پینڈو طلبا اپنے آپ کو ممی ڈیڈی ظاہر کرنے کی لئے کسی بھی ریسٹورانٹ پر پیزا میں فجیتا، کافی میں کپچینو، سلاد میں رشین سیلڈ اور ڈرنکس میں فریش لائم ہی منگواتے تھے۔ آج تک اس آزمودہ مینو سے ہٹ کر کوئی اور طعام آرڈر کرنے کا رسک ہی نہیں لیا۔ کیوں کہ کھانوں کے نام اتنے مشکل، کہ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں آئس کریم جیسی کوئی بلا آرڈر کر کے اس کو نان کے ساتھ کہیں ہڑپ نہ کرنا شروع کر دیں۔ لہٰذا یورپ میں اترتے ساتھ ہی انہی ممی دیڈی اداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے پرآنے آزمودہ فارمولے کے تحت کپچینو کافی کا آرڈر دیا۔ لیکن کمبخت اتنی مضبوط یعنی اسٹرونگ کہ پی کر ہمارے چودہ طبق ایسے روشن ہوئے کہ قائد اعظم کے چودہ نقاط بالترتیب یاد آگیے۔ نیند ایسے بھاگی کہ بقول شاعر،
مرنے کے بعد بھی میری آنکھیں کھلی رہیں

بہرحال اللہ اللہ کرکے ہم اپنے فلیٹ پہنچ گئے۔ گھرمیں پانی بھی منگوا کر پینے والے اس شخص پر اچانک برتن دھونے اورکھانا بنانے کی ذمہ داری عائد ہو جائے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ کام اتنا بھی آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے تھے۔ یورپ میں ذائقے سے زیادہ کھانوں کی غذائیت پر توجہ دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو نہ صرف کھانوں بلکہ آجکل تو خبروں اور رمضان نشریات میں بھی مصالحوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ مرحومہ زبیدہ آپا کی تراکیب میں اپنے تڑکے لگاکر ماشا اللہ ایسے کھانے تیارکیے کہ ہمارے ہاتھ سے پکی ہوئی بریانی پلاؤ کی جڑواں بہن لگتی تھی۔ مرچ مصالحے کی بھرمار سے معدے کے ساتھ ساتھ جسم کے کافی حصے چیخ چیخ کر یہی پکار رہے تھے کہ ”ابے تم تو انسان نہیں لگتے، لیکن کچھ ہمارا ہی خیال کر لو“۔ اس خوراک سے جسم کے تمام متاثرہ حصوں نے مجھے ایسے ایسے القابات سے نوازا کہ فیض آباد دھرنے کے کرتے دھرتے مولوی صاحب کی گفتگو بھی اس کے مقابلے میں انتہائی مہذب محسوس ہوتی ہے۔

یورپ کا نام سنتے ہی پاکستان میں مقیم ایک عام شخص کی ذہن میں ایک بھرپور زندگی کا نقشہ ابھرتا ہے۔ پیسے کی ریل پیل، حسین قدرتی نظارے، بہترین سہولیات اور ہر وقت ہنستی مسکراتی اور مر مٹنے کیلے لئے تیار حسینائیں۔ یہ سچ ہے کہ یہاں زندگی تمام تر سہولیات میسر ہیں لیکن ان تک رسائی کی لئے ہر روز محنت کرنی پڑتی ہے۔ پاکسان میں ایک شخص پورے خاندان کی کفالت کرتا ہے اور ریاست اس کے بچوں کی دیکھ بال میں ذرا بھر بھی ہاتھ نہیں بٹاتی۔ یہاں اگرچہ بچوں کی تعلیم تربیت میں ریاست اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن بلوغت کے بعد آپ اس نظام میں فارغ رہنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ لوگ کام میں اس قدر مشغول ہو جاتے ہیں کہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ آتے وقت ہم نے بھی آنکھوں خواب سجائے تھے کہ یہاں ہمیں حسینائیں ”ہنس کر دیکھتی ہوں گی“ حالانکہ ایسا اتفاق تو کبھی نہیں ہوا البتہ ایک دوست کے بقول کبھی کبھی ہمیں ”دیکھ کر ہنستی“ ضرور ہیں۔ دعا ہے ہمارا حال آپ کے خیال اور آپ کا ہمارے خیال کے مطابق خوشحال ہو جائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).