’صدر ٹرمپ خاندان اکھٹے کر کے ہیرو نہیں بن گئے‘


امریکی حکام کا کہنا تھا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں امریکی سرحد پر تقریباً 2000 مہاجر بچوں کو ان کے گھر والوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں امریکی سرحد پر تقریباً 2000 مہاجر بچوں کو ان کے گھر والوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید تنقید کے بعد غیر قانونی تارکین وطن خاندانوں کے بچوں کو والدین سے سے علیحدہ کرنے کی پالیسی واپس لیتے ہوئے صدارتی حکم نامے پر دستخط تو کر دیے ہیں لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکم نامے میں ان 2300 بچوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا گیا جنھیں پہلے ہی انتظامیہ نے والدین سے جدا کر رکھا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ان میں چند بچوں کو سرحد پر تعینات امریکی اہلکاروں نے ریاست ٹیکسس کے ایک ویئر ہاؤس میں بند کر رکھا ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے کیمپوں میں بچے قید ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ: غیر قانونی تارکینِ وطن کے خاندانوں کو جدا کرنے کی پالیسی ختم

سرحد پر جدا ہونے والی بچی کی کہانی

ماؤں سے بچھڑے بچوں کی خبر پر امریکی نیوز کاسٹر رو پڑیں

امریکی میڈیا میں خبریں ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی بیوی اور بیٹی کے کہنے پر خاندانوں کو جدا کرنے کی یہ پالیسی تبدیل کی ہے تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسا روتے بچوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد کیا ہے۔

خاندان سے پہلے ہی جدا ہوئے بچوں کا کیا ہوگا؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں مقیم ایک وکیل اور مصنف قاسم راشد نے کہا ’اس ایگزیکٹیو آرڈر میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر ان بچوں کو کب والدین سے ملایا جائے گا جو پہلے سے تنہائی میں قید کاٹ رہے ہیں۔ یہ بچے جانی اور ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں مگر ان کے تخفظ کو یقینی بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘

امریکی میڈیا میں خبریں ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی بیوی اور بیٹی کے کہنے پر خاندانوں کو جدا کرنے کی اپنی پالیسی تبدیلی کی ہے تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا روتے بچوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد کیا ہے۔

امریکی میڈیا میں خبریں ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی بیوی اور بیٹی کے کہنے پر خاندانوں کو جدا کرنے کی اپنی پالیسی تبدیلی کی ہے تاہم صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا روتے بچوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد کیا ہے۔

واشنگٹن کے رہائشی اور سماجی کارکن وجاہت علی نے بی بی سی کو بتایا ’ٹرمپ انتظامیہ قید میں ان بچوں کو بارگینیگ چپ کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ سیاستدانوں کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے مجبور کر سکے۔ وہ غیر قانونی طور پر آئے ان بچوں کو سیڑھی بنا رہی ہے۔ انھیں یرغمال بنایا جا رہا ہے۔ خاندانوں کو اکھٹا کر کے صدر کوئی ہیرو نہیں بن گئے بلکہ وہ مجبور ہوئے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی واپس لیں۔‘

کیا غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی قانونی ہے؟

صدارتی آرڈر میں امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے افراد کو گرفتار کرنے کا عمل جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جس پر بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے صدر ٹرمپ نے انتظامیہ کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ پناہ کے لیے سرحد پر آنے والے مہاجروں کو غیر معینہ مدت کے لیےحراست میں لے لیا جائے جو کہ 1997 کی فلورز سیٹلمنٹ کی خلاف ورزی ہے۔

فلورز سیٹلمنٹ ایک عدالتی فیصلہ تھا جس کے تحت امریکی انتظامیہ پناہ چاہنے والے کم عمر بچوں کو 20 دن سے زیادہ عرصے کے لیے تحویل میں نہیں رکھ سکتی۔

اس سلسلے میں قاسم راشد نے کہا ’یہ بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی حلاف ورزی ہے۔ پناہ مانگنا کوئی جرم نہیں۔ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنا غیرقانونی ہے۔ بچوں کو الگ قید میں رکھنا یا ان کے لیے کیمپ یا سینٹرز بنانے کے بجائے حکومت ان خاندانوں کو وکیل مہیا کرے تاکہ وہ عدالتی پیشی میں خاضر ہو سکیں۔ اس سے حکومت کا پیسہ بھی بچے گا اور یہ قومی سلامتی کے لیے بھی بہتر ہے۔‘

ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کے خلاف چند میئرز جمعرات کو احتجاج بھی کر رہے ہیں جبکہ اسی حوالے سے کانگریس میں دو بلوں پر بھی ووٹنگ متوقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp