مزاحمتی مزاح نگار کے لئے چند مسکراہٹیں


ہنسانے والا جب چلا جائے اور ایک بھرپور زندگی گزار کر جائے۔ ایک پورے عہد کو اپنے نام کر کے جائے تو اس کے رخصت ہونے پر رونا ہرگز نہیں چاہیے۔ یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہنسانے والا رلا گیا۔ اور یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ عہد یوسفی ختم ہو گیا۔ بدقسمتی سے ہم بھیڑ چال کے زمانے میں زندہ ہیں اور بھیڑ چال بھی وہ کہ جس میں بہت سے بھیڑیوں نے بھیڑوں کی کھال اوڑھ رکھی ہے۔ اور پھراس بھیڑ چال میں ہم سوچے سمجھے بغیر کسی کی موت پر آہ وزاری شروع کردیتے ہیں اور اس لیے شروع کردیتے ہیں کہ ہمیں مرنے والے کے ساتھ رونے کی تربیت دی گئی ہے۔ مرنے والے کے ساتھ خواہ ہمارا تعلق ہو یا نہیں۔ خواہ ہم نے اس کی کوئی کتاب دیکھی بھی نہ ہو۔ خواہ ہمیں یہ ادراک بھی نہ ہو کہ وہ کتنا بڑا انسان تھا اور وہ کتنی بڑی ہستی تھی۔ بس ہم نے کسی کی موت پر خود نمائی کرنا ہوتی ہےاور سب سے پہلے وہ تصویر تلاش کرنا ہوتی ہے جو ہم نے اس کے ساتھ بنوائی تھی۔ یوسفی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا جو عام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر ان کی موت پر ماتم شروع کردیا کہ وہ تو دکھوں کو قہقہوں میں اڑانے کے قائل تھے۔ کسی ایک نے کہیں لکھ دیا کہ عہد یوسفی تمام ہوا۔ ہم سب نے یہ سوچے بغیر یہ جملہ نقل کر دیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ کسی اور کا عہد شروع ہوئے بغیر یوسفی صاحب کا عہد بھلا کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں سوچا کہ کیا کوئی اور ایسا بلند پایہ مزاح نگار یا نثرنگار ہمارے درمیان موجود ہے جس نے پورے عہد کو متاثرکیا ہواور یوسفی صاحب سے زیادہ متاثر کیا ہو اور جس کے لئے ہم یہ کہہ سکیں کہ یوسفی صاحب کے جانے کے بعد ہم اب اس کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، جس نے یوسفی صاحب سے بڑا ادب تخلیق کیا ہے۔

ہم چھوٹے چھوٹے فقرہ نویس، عرضی نویس، منشی نما کالم نگار خود کو بہت ڈھٹائی کے ساتھ ادیب سمجھتے ہیں اور اپنی جگتوں کو مزاح کہتے ہیں۔ اس غیر مہذب معاشرے میں گالی کو اس معراج پر پہنچا دیا گیا کہ جہاں بعض بھانڈ میراثی بھی علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ زوال کی انتہا یہ ہے کہ ہم اب ہنسنے کے لیے اور لطیفے تلاش کرنے کے لیے مذہبی چینل دیکھتے ہیں۔ اور اس لیے دیکھتے ہیں کہ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں مزاحیہ شوز اور تھیڑوں میں ہونے والے پھکڑ پن کو دیکھ کراب ہنسی نہیں رونا آتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ظلم وبربریت ہو،  آنسو ہوں، ہچکیاں ہوں، لاشیں ہوں، ماتم ہو، آمریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو اور پہرے دار ہمارے حاکم ہوں۔  جہاں ہنسنا بھی آداب محفل کے منافی قرار پا چکا ہو۔ ایسے معاشرے میں روتے ہوﺅں اور سہمے ہوﺅں کو ہنسانا کتنا مشکل کام ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ہم نے جس معاشرے میں سانس لیا وہاں دکھ دینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خوف زدہ کرنے والوں کی تعداد دکھ دینے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ اور اس معاشرے میں دھمکیاں دینے، طمانچے مارنے، بے روزگار کرنے اور کوڑے مارنے والوں کی تعداد تو اتنی زیادہ ہے کہ جسے گنتی میں ہی نہیں لایا جا سکتا۔ ان ظالموں کے کوڑے ہمیں جسموں پر ہی نہیں اپنی روحوں پر بھی برستے محسوس ہوتے ہیں۔ اوراس ساری صورت حال کے باوجود ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ظالموں کے اس ہجوم میں چند لوگ ایسے ضرور تھے کہ جو ہمیں مسکراہٹیں دیتے تھے۔ جو ہمیں بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیتے تھے۔ اور ان چند لوگوں میں اگر قلم کے رشتے سے دیکھا جائے تو ہمیں سب سے بڑا نام مشتاق احمد یوسفی کا ہی نظرآتا ہے۔ ہم جب بھی کسی دکھ کے لمحے میں ہوتے تھے۔ جب بھی ہمارا دل درد سے بھر جاتا تھا اور ہمیں رونے کے لیے کوئی شانہ میسر نہ ہوتا تھا۔ اور ہمیں خود کو روئے بغیر اس درد بھری کیفیت سے نکالنا ہوتا تھا تو ہم اپنی لائبریری سے مشتاق احمد یوسفی کی کتاب اٹھاتے اور انہیں پڑھتے ہوئے اپنے دکھ کو مسکراہٹوں میں تبدیل کرلیتے۔

”چراغ تلے“، ” خاکم بدہن“، ” زرگزشت“ اور پھر”آب گم“۔ یوسفی صاحب کی یہ کتابیں دکھ کے سفر میں زاد راہ کے طورپر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں۔ ”شام شعر یاراں“ شائع ہوئی تو ہم نے و ہ کتاب تبرک کے طورپر صرف اس لیے خریدی کہ ہم جانتے تھے کہ یہ مشتاق احمد یوسفی کی آخری کتاب ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کے بعد ہم نے یہ سیکھنے کی کوشش کی کہ جملہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے موضوعات، اسلوب اور خوبصورت نثر پاروں پر کئی زاویوں سے بات ہو چکی لیکن ان کے فن کے ایک پہلو پر توجہ نہیں دی گئی۔ اور وہ پہلو یہ تھا کہ مشتاق احمد یوسفی اردو کے واحد مزاحمتی مزاح نگار تھے۔ ہم نے مزاحمت کا لفظ صرف شاعروں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ اور نثر نگاروں میں بھی ہمیں مزاح کے میدان میں مزاحمت کی کوئی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مزاح نگاروں کی ایک پوری پلٹن کا تعلق اس ادارے سے تھا جہاں سے آمریت کی آکاس بیل سر نکالتی ہے۔ کرنل شفیق الرحمن، میجر ضمیر جعفری، کرنل صدیق سالک، کرنل صولت رضا۔ یہ چند نام ایسے ہیں جن کا مزاح کے میدان میں طوطی بولتا رہا۔ غیر فوجی مزاح نگاروں میں سب سے نمایاں نام پطرس بخاری، ابن انشا اور عطاءالحق قاسمی کے ہیں۔ ان میں بھی مزاحمت کی ایک جھلک ہمیں صرف عطاءالحق قاسمی کے ہاں دکھائی دیتی ہے اور وہ اس لیے کہ اول الذکر دو مزاح نگاروں نے آمریت کو اس طرح سے نہیں جھیلا جس طرح عطاءالحق قاسمی کو برداشت کرنا پڑا۔

مشتاق احمد یوسفی بینکنگ کے شعبے میں اہم عہدے پر فائز تھے۔  جنرل ضیاءکے دور میں جس طرح فیض احمد فیض،  احمد فراز اور افتخار عارف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اسی طرح مشتاق احمد یوسفی کے لیے بھی پاکستان میں رہنا محال ہوگیا تھا۔ ایک میٹنگ میں جنرل ضیاء کے ساتھ ناگوار بحث کے بعد مشتاق یوسفی نے فیصلہ کیا کہ وہ اب پاکستان میں نہیں رہیں گے۔ جنوری 1979ء میں  28 سال کراچی میں رہنے کے بعد وہ لندن رخصت ہو گئے۔  ”آب گم“ انہوں نے جلاوطنی کے زمانے میں تحریر کی۔ یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ ”آب گم“ سے پہلے مشتاق احمد یوسفی ”زرگزشت“ کو خودنوشت کے طور پر تحریر کر چکے تھے۔ لیکن ”آب گم “ میں جلاوطنی کے تجربات کے ساتھ ساتھ ناسٹلجیا جس بھرپور انداز میں ملتا ہے اس نے اس کتاب کو شاہکار بنادیا۔ ”آب گم“ میں جلاوطنی کے ساتھ ساتھ آمریت پر طنز بھی جابجا ملتا ہے۔ ضیاءالحق کے دور کو ”عہد ضیاع“ کا نام مشتاق احمد یوسفی نے ہی ”آب گم “ میں دیا تھا جو بعد ازاں ضرب المثل کی صورت اختیار کرگیا۔

اسی کتاب میں اپنے ایک کردار سے انہوں نے کہلوایا ”اللہ معاف کرے، میں تو جب اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رجیم سے یہی Regime مراد ہے۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ“۔ ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ”ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفید ایک اور قبیلہ ہوتا ہے۔ اسے مافی الضمیرفروش کہنا چاہیے۔ یہ وہ قبیلہ ہے جس سے ڈکٹیٹر تصدیق کراتا ہے کہ میرے عہد میں اظہار و ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں۔ مطلب یہ کہ جس کا جی چاہے جس زمین جس بحر میں قصیدہ کہے قطعاً کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی“۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ”کچھ لوگ ایسے خوفزدہ اور سورج کی پرستش کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی سجدے میں پڑے رہے کہ نجانے پھر کب اور کدھر سے نکل آئے“۔

اس تحریرکا اختتام ہم نرسری کے بچوں کے لیے لکھی گئی مشہور نظم ”Humpty Dumpty “ کی اس تشریح پر کرتے ہیں جس میں مشتاق احمد یوسفی نے کچھ کہے بغیر لال کمال حادثے کا ذکر کر دیا وہ حادثہ جس میں جنرل ضیاء کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا تھا اور خود جنرل ضیاء اور ان کے ساتھی بھی طیارے کے ملبے کے ساتھ لودھراں کے نواح میں بکھر گئے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اسی نظم کے دومصرعوں کو نئی معنویت دے کر ان کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا

humpty dumpty have a great fall

all the kings horses and all the kings men

could not put humpty dumpty together again

آج ہم مشتاق یوسفی کو مسکرا کر خدا حافظ کہہ رہے ہیں اور اس لئے مسکرا رہے ہیں کہ وہ ایک لمبی اور کامیاب اننگز کھیل کر رخصت ہوئے۔ ایک ایسے معاشرے میں انہیں احترام کے ساتھ رخصت کیا گیا جہاں اب بہت سی محترم ہستیاں بھی احترام کے قابل نہیں رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).