تریپن روپے کی بچت


اسٹیٹ بینک آف پاکستان سال میں کئی بار، عوامی اطلاع کے لئے، ملکی معیشت کی جائزہ رپورٹ جاری کرتا ہے۔ چند ماہ پیشتر اُس کی رپورٹ میں پاکستان کے آبی مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی۔ تجویز کیا گیا کہ پانی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ معاشی جائزے میں پانی کی قیمت میں اضافے کا مشورہ، بروقت اور خوش آئند ہے۔ ماہرین متفق ہیں کہ ’’پانی کی معیشت‘‘ اچھی حالت میں نہیں۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ آبی ذخائر سکڑ رہے ہیں اور انگریز کے زمانے کا بنا ہوا نہری نظام شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اِن مسائل کے علاوہ پاکستان کی آبادی میں بڑھتا ہوا اضافہ، ایک مشکل مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔ روزمرہ کی انسانی ضروریات اور خوراک پیدا کرنے کے لئے پانی چاہئے۔ بڑھتی ہوئی آبی قلت کا اندازہ اِس حوالے سے لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی ملنے کے بعد پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی اسی فیصد کم ہو چکی ہے۔ اگر ہم نے پانی کی معیشت کو صحت مند خطوط پر استوار کرنا ہے تو اسٹیٹ بینک کی صائب تجویز پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہو گا۔ میرا تعلیمی پس منظر معاشیات کے علم سے وابستہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ تحریر میں آبی مسئلے کا جائزہ اِس حوالے سے لیا جائے گا کہ قیمت ہی کسی شے کی طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

انسان نے لاکھوں کروڑوں سال میں قدرت سے نباہ کرنا سیکھا۔ ہمارے ہاں صوبہ بلوچستان میں مہر گڑھ کی تہذیب سب سے پرانی ہے۔ بے آب و گیاہ علاقوں میں انسان نے اپنی بقا کے لئے مختلف طریقے اپنائے۔ اِس علاقے میں پانی کمیاب تھا۔ آگ برساتے سورج سے پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے، زیرِ زمین آبی گزر گاہیں بنائی گئیں۔ قدرت کے خزانے کو بخارات میں تبدیلی سے بچائو کا انوکھا طریقہ، بلوچستان کی ایجاد تھی۔ اُس زمانے کے لوگ زراعت کے لئے آبی وسائل کو سوچ سمجھ کر استعمال کرتے۔ خشک علاقوں میں، کم پانی سے تیار ہونے والے پھل اور فصلیں اگائی جاتیں۔

پنجاب اور سندھ میں حالات مختلف تھے۔ انگریز کی حکومت سے پہلے، سیلابی پانی، آبپاشی کا بہترین ذریعہ تھا۔ سیلاب ہی زرعی زمین میں نمی کی ضروریات پوری کرتا۔ مون سون کے موسم میں بارش ہوتی، بپھرے دریائوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے نہ کوئی ڈیم تھا اور نہ کوئی بیراج، جس سے پانی کا رُخ موڑا جاتا۔ نہری نظام کی عدم موجودگی میں ہماری زراعت سیلابی پانی کی مرہونِ منت تھی۔ انسان نے پانی کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانا سیکھا تو سیلاب میں کمی آ گئی۔ آج کل نہری نظام کے ذریعے مقررہ مقدار میں پانی ملتا ہے مگر ہمارا کسان آج بھی فصلوں کی آبیاری سیلابی طریق سے کرتا ہے۔ اُسے کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ پانی ضائع کرنے کی وجہ سے، یہ طریقہ دُنیا کے بیشتر ممالک میں متروک ہو چکا ہے۔

ہمارے آئین کے مطابق آبی وسائل اور زراعت کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے سپرد ہے۔ ہر صوبے میں زراعت کا محکمہ، پانی کے بہتر استعمال کے طریقے رائج کرنے میں کوشاں ہے۔ مگر اُنہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اُن کی کوشش پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، راہ رو منزل ہی نہیں

عام طور پر، آبپاشی کے لئے کھیت کی سطح مناسب طور پر ہموار نہیں کی جاتی۔ پانی اُونچائی کے گرد راستہ بناتے ہوئے، نچلی سطح پر جمع ہو جاتا ہے۔ کھیت میں نمی غیر متناسب طریقے سے پھیلتی ہے اور زیادہ پانی استعمال ہونے کے باوجود، فصل کی پیداوار نہیں بڑھتی۔ کسان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ کھیت میں لیزر تکنیک سے زمین ہموار کرے تاکہ نمی سارے پودوں کی جڑوں تک پہنچے۔ آبپاشی کا ایک اور طریقہ (Sprinkler Irrigation)، سپرنکلر ایریگیشن ہے۔ اِس طریقے میں پانی کی پھوار، آبپاشی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ آبپاشی کا ایک اور مؤثر نظام (Drip Irrigation)، ڈرپ ایریگیشن کہلاتا ہے۔ کھیت کے اندر پانی کی ترسیل کے لئے پائپ بچھائے جاتے ہیں۔ اِن پائپوں میں پودے کی جڑوں کے قریب چھوٹے سوراخوں کے ذریعے زمین کو نم کیا جاتا ہے اور کھیت کا باقی حصہ خشک رہتا ہے۔ یہ نظام پانی کی بچت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔

اِن طریقوں کی تفصیل دینے کا مقصد تھا کہ قاری کے علم میں آئے کہ اگر فلڈ ایریگیشن میں پانی کے سو یونٹ استعمال ہوتے ہیں تو لیزر سے زمین ہموار کر کے چالیس فیصد پانی کی بچت ممکن ہے۔ سپرنکلر ایریگیشن کے نظام میں بچت کی شرح اور بڑھ جاتی ہے اور ڈرپ ایریگیشن کے استعمال سے تو، پانی کی بچت نوے فیصد تک ممکن ہے۔ ہمارے آبی وسائل کا نوے فیصد سے زائد حصہ زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کسان پانی کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ قاری کے ذہن میں خیال آ سکتا ہے کہ اگر آبپاشی کے جدید نظام سے پانی کی اِس قدر بچت ممکن ہے تو ہمارا کسان کیوں یہ طریقے استعمال نہیں کرتا۔

یہی سوال ذہن میں آیا۔ واپڈا میں تعیناتی کے دوران جواب تلاش کرنے کے لئے زرعی یونیورسٹی، ٹنڈو جام کے ساتھ تکنیکی تعاون کا معاہدہ کیا۔ اِس درس گاہ کے ماہرین نے چشم کُشا رپورٹ تیار کی۔ اُن کی تحقیق کے مطابق اگر ایک ایکڑ زمین میں گندم کاشت ہو تو لاگت تقریباً پچیس ہزار روپے کے قریب ہو گی۔ اِس میں زمین کے ٹھیکے کی رقم شامل نہیں۔ البتہ بیج، کھاد، کیمیائی ادویات، بوائی کی مزدوری، فصل کاٹنے، دانہ علیحدہ کرنے، مارکیٹ تک گندم کی ترسیل اور پانی کی قیمت شامل ہے۔ اگر کسان پانی کی بچت کرنا چاہے تو ایک ایکڑ زمین کو لیزر تکنیک کے ذریعے ہموار کرنے پر تقریباً ایک ہزار روپے خرچ آئے گا۔ باقی طریقے جن میں سپرنکلر اور ڈرپ ایریگیشن سسٹم شامل ہیں، زیادہ مہنگے ہیں۔ اِن دونوں طریقوں کا نظام اپنایا جائے تو لاگت ہزاروں روپوں میں ہو گی۔ مگر ایک دفعہ کی سرمایہ کاری کافی دیر تک کارآمد رہتی ہے۔ اگر کسان پانی کی بچت پر مائل ہو تو ہر صوبائی حکومت سہولت دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان پھر بھی فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتا؟ وہ پانی کی بچت میں دلچسپی کیوں نہیں لیتا؟ وجہ یہ ہے کہ کسان بھی دُوسرے انسانو ں کی طرح اپنے فائدے اور نقصان میں فرق کا ادراک رکھتا ہے۔ ایک ایکڑ زمین میں پانی کی بچت کے نئے طریقے اپنانے پر اُسے ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ جبکہ ٹنڈو جام یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ سندھ میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار کے لئے جو پانی کسان کو مہیا کیا جاتا ہے، اُس کی قیمت تریپن روپے ہے۔ کون ہو گا جو ہزاروں روپے خرچ کرکے، اُس پانی کا کچھ حصہ بچائے جس کی کل قیمت صرف تریپن روپے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood