وڈیرو اور سردارو، اب سوالات تو اٹھیں گے


انتخابی ماحول بن رہا ہے، برسوں عوام کی دسترس سے باہر رہنے والے مداری ڈگڈگی کو کپڑا مار کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ آمدہ الیکشن میں تحریک انصاف امید سے ہے یہ اسی امید ہی کا نتیجہ ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل سو دن کا ایجنڈا بھی پیش کر دیا۔ لگتا ہے برسوں آمریت اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا شکار رہنے والے ملک میں شعور و آگہی دستک دے رہی ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے دھرنوں کو ٹول بنانے والے عمران خان کی اقامت گاہ کے باہر کارکن دھرنوں پر ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ دھرنوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ جب کہ دوسری طرف نوجوانوں کا کہنا ہے کہ نیا پاکستان بنانے والے پرانے مستریوں پر اکتفا کیوں کر رہے ہیں۔

عمران خان گھاٹ گھاٹ کے سیرابی الیکٹیبلز بقول شخصے بن پیندے کے لوٹوں کا احتساب کرنے کا خواب دکھا کر انھیں کو آغوش میں جگہ دے رہے ہیں۔ باوجود سینٹ انتخابات میں دھوکا کھانے اور مبینہ طور پر تحریک انصاف کی ٹکٹس فروخت کیے جانے کے، عمران خان کے مطابق لیڈر شپ زیادہ معنی رکھتی ہے اور ان جیسے لیڈر کے ہوتے ہوئے چڑیا پر بھی نہیں مار سکتی۔ بہرحال دیکھتے ہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا ہے کہ ملک میں تبدیلی کی فضا چل پڑی ہے۔ رعایا سوال اٹھانا سیکھ چکی ہے۔ کشمور اور ڈیرہ غازی خان پاکستان کے وہ دو اضلاع ہیں جو سندھ کے وڈیرا شاہی اور بلوچستان کے سرداری نظام کی عمدہ ترین مثال ہیں، لیکن اس بار الگ یہ ہے کہ ان دو اضلاع میں عوام اپنی فہم اور فکری اٹھان کے مطابق سوالات اٹھا رہے ہیں۔

تحفظات کا اظہار کچھ اس طریقے سے کیا جا رہا ہے کہ کل تک سیاہ و سفید کے مالک رعونت بھرے سرداروں سے جواب بن نہیں پا رہا۔ جمعرات اکیس جون کو کشمور میں نسلوں سے حاکم چلے آتے مزاری قبیلے کے سردار سلیم مزاری کو نوجوانوں نے اک سیاسی بیٹھک میں یوں لاجواب کر دیا کہ بتائیں ہم نے آپ کو اپنا نمایندہ منتخب کیا تھا آپ نے اپنا کردار کہاں تک ادا کیا؟ ہماری فلاح کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا احوال ہو جائے پھر آمدہ الیکشن پر بات بھی ہو جائے گی! جواباً سلیم مزاری صاحب نے آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے نو دو گیارہ ہونے ہی میں عافیت جانی۔

دوسرا واقعہ سابق صدر مرحوم فاروق خان لغاری صاحب کے فرزند ارجمند سردار جمال لغاری سے متعلق ہے دیہاتی اور قبائلی علاقوں کے چند نوجوانوں نے سردار کا راستہ روک کر انھیں نیچے اتارا اور شستہ انگریزی میں ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ گو میرے نزدیک نوجوانوں کا طریقہ کار غلط تھا، یوں راستہ روکنا اور موقع محل کو دیکھے بغیر جذباتیت کا مظاہرہ، اکسانے والا محسوس ہوا۔

قبائلی و سرحدی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ان سرداروں نے بچپن سے عوام کو اپنی اوطاقوں میں سرنگوں ہوتے ہی دیکھا ہے۔ فکری غربت اور ذہنی غلامی کا شکار ان کی رعایا نے ان سے کبھی سوال کرنے کی جرات نہیں کی تھی۔ رعونت سے بھرے یہ سردار ان رویوں کے عادی نہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر رعایا کو عبرت کا نشان بنانے والے، ان سرداروں سے کچھ بعید نہیں کہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے یہ کس حد تک چلے جائیں۔

اس لیے مجھے نوجوانوں کا یہ قدم احمقانہ حد تک بہادری کا حامل لگا۔ یہ سوالات کسی سیاسی بیٹھک کسی انتخابی مجلس میں اٹھائے جاتے تو اس کی افادیت مزید بڑھ سکتی تھی۔ شستہ انگریزی میں سوالات کرنے والے کمانڈو سیف نامی نوجوان کو سردار جمال خان لغاری کا یہ کہنا کہ ووٹ کی اک پرچی پر اتنا ناز اور جمہوریت کے بارے میں تضحیکانہ اطوار، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان سرداروں کے نزدیک شہریوں کی کتنی وقعت ہے۔

ان دونوں واقعات کے بعد سرداروں کا ردعمل توقع کے عین مطابق تھا۔ سوشل میڈیا پر سردار اویس لغاری کے پیج سے کمانڈو سیف کو دو ٹکے کا بتاتے ہوئے الیکشن کے بعد نپٹنے کی وارننگ دی گئی اور اخباری رپورٹس کے مطابق اس نوجوان پر ایف آئی آر بھی درج کرائی جا چکی ہے، مگر سردار یہ سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں کہ وہ وقت چلا گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

گو کہ جاگیر دار نظام کے زیر اثر ملک چلانے والوں نے عوام کو تعلیم و شعور سے بے بہرہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر موجودہ نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر باغی ہو چکی ہے۔ اب نئی نسل سوال اٹھاتی ہے کہ ہم میں سے نوجوان ڈاکٹر انجینئر وکیل سول سرونٹ بن سکتے ہیں تو سیاست کیوں نہیں کر سکتے ان سرداروں میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں، کہ یہ نسلوں سے بنا شرکت غیرے حکومت کرتے آ رہے ہیں۔ زمینی حقائق کو جوتے مارنے والے سردار اور سچ کو ذبح کرنے والے ان کے ہرکاروں کو خبر ہو کہ یہ وہ نوجوان نسل ہے، جو نہ صرف سوال اٹھاتی ہے بلکہ کسی بھی غلط قدم پر احتجاج کا حق بھی محفوظ رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).