میری نہیں یہ پانی کی کہانی ہے!


چند دن پہلے فاضلکہ کے قریب ایک سرحدی گاؤں سے ایک صاحب بہت بوکھلائے ہوئے آئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کے ٹیوب ویل کا پانی کھارا ہو گیا ہے۔ یہ ہی واردات، ساہیوال کے قریب ایک گاؤں کے زمیندار کے ساتھ ہوئی۔

میٹھے پانی کے یہ کنوئیں کیوں کھاری ہو رہے ہیں؟ سطح سمندر سے زیادہ گہرائی سے پانی نکالنے سے کھارا پانی میٹھے پانیوں کے ذخیروں میں شامل ہو جاتا ہے اور ایک بار کھاری ہوئے کنوئیں، ہم نے تو میٹھے ہوتے دیکھے نہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو پانی کی کمی درپیش ہے اور آنے والے وقتوں میں اس میں اضافے بلکہ شدید اضافے کاخدشہ ہے۔ پانی کا یہ مسئلہ یقیناً ماہرین کی نگرانی میں حل ہونا چاہیے لیکن کچھ سامنے کی باتیں میں بھی کہنا چاہوں گی۔

سب سے پہلے تو پانی کے استعمال کے انداز بدلنے ہوں گے۔ زراعت کے لیے ہم اب بھی ‘فلڈ اریگیشن ‘ کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ اس طریقے میں پانی کا بے تحاشا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر اس طریقۂ کار کو تبدیل کر کے اس کی جگہ ڈرپ اریگیشن یا دیگر طریقے اپنا لیے جائیں تو پانی کا فی ایکڑ خرچ بہت کم ہو جائے گا۔

اسرائیل کو کوستے کوستے ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔ لیکن ان کم بختوں نے اپنے صحرا کو ڈرپ اری گیشن سے نخلستان بنا ڈالا ہے۔ ہم بے چارے اپنے قوتِ ایمانی کے جذبے سے چھلکتے ایسے مخمور بیٹھے ہیں کہ دنیا کی زرخیز ترین وادی کو بنجر کر نے والے ہیں۔

حنہ جھیل

بارش کا پانی، ساون اور مہاوٹوں کی صورت ایک زحمت بن جاتا ہے۔ زرعی زمینوں پہ دیوانہ وار نئی کالونیز تو بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کالونیوں میں بارش کا پانی جمع کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رکھا جاتا۔ مہذب ممالک میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے جسے،’رین واٹر ہاروسٹنگ’ کہا جاتا ہے۔

اس طریقے میں چھت کے سب پرنالوں کو ایک بڑے پرنالے کے ذریعے زیرِ زمین ایک بڑے ٹینک میں جمع کر لیا جاتا ہے اور بعد ازاں یہ پانی ،استعمال کیا جاتا ہے۔ پینے کے قابل نہ بھی ہو تو اس سے کپڑے اور برتن دھونے کے ساتھ، گھریلو پودوں یا کچن گارڈن کو پانی دیا جا سکتا ہے۔

گھروں میں استعمال ہونے والا سب پانی سیدھا گٹر میں چلا جاتا ہے۔ مکان کے نقشے میں پانی کے مناسب استعمال پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ بارچی خانے کا پانی، نہانے، منہ دھونے اور کپڑے دھونے کے بعد صابن ملا پانی، گاڑی دھونے کتے نہلانے،پورچ دھونے اور گھاس کو پانی لگانے کے کام آ سکتا ہے۔

صنعتوں میں استعمال ہو نے والا پانی، بغیر صفائی کے نہروں، دریاؤں میں پھینکنے کی بالکل ممانعت ہونی چاہیے۔ یوں بھی بہت سی صنعتیں، استعمال شدہ یا ‘گرے واٹر’ سے بھی چلائی جا سکتی ہیں۔ان پہ بے وجہ، میٹھا پانی ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔

فصلیں

زیرِ زمین پانی کی سطح بڑھانے کے لیے حال ہی میں انڈیا میں ریاست گجرات میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سطح 21 سو فٹ تک گر گئی تھی جبکہ پاکستان میں یہ سطح ابھی اس حد سے خاصی بلند ہے شائد تین ساڑھے تین سو فٹ۔

گجرات ہی کی ایک خاتون نے، زمین میں چوڑے منہ کے پائپ لگا کر انہیں فلٹر پلانٹ سے گزار کے زیرِ زمین پانی کے ذخیروں تک پہنچانے کی تکنیک نکالی ہے۔ اس طرح زیرِ زمین پانی کی سطح بہتر ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے قریباً ڈیڑھ سو ڈیمز موجود ہیں اور 25 ڈیمز کے منصوبے زیرِ غور یا زیرِ تعمیر ہیں۔ انڈیا کے ساتھ پانی کی تقسیم پہ بھی مضبوط بنیادوں پہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔

یاد رکھیے، وادئ سندھ میں بسنے والے ہم پہلے انسان نہیں، ہم سے پہلے بھی یہاں کئی تہذیبیں پھلی پھولیں اور پھر ناپید ہو گئیں۔

قیاس کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ دریاؤں کے رخ بدلنے سے مر گئے اور کچھ اپنے ہی بنائے ہوئے بندوں کے ٹوٹنے سے آنے والے سیلابوں میں ڈوب کے مر گئے۔ جانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ تازہ پانی کے ذخیرے تیزی سے سکڑ رہے ہیں اور ان کو بچانا ابھی کچھ بھی مشکل نہیں۔

ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم پانی کی عزت کریں، اس میں کسی بھی قسم کی آلودگی شامل نہ ہونے دیں، پانی کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ تیل کے کنوئیں اگر خشک ہوں گے تو صرف ریالوں درہموں اور ڈالروں کی ریل پیل رکے گی لیکن پانی کے کنوئیں سوکھ گے تو سانس کی ڈور ٹوٹ جائے گی۔ پیاس پانی ہی سے بجھتی ہے، شائد یہ بات ہمیں اس وقت سمجھ آئے گی، جب ہم میٹھے پانی کا آخری گھونٹ بھی ضائع کر بیٹھیں گے۔

ابھی وقت ہے، اس کہانی کا انجام ابھی لکھنا باقی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ انجام ’اور پھر وہ سب خوشی خوشی رہنے لگے‘ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).