بغیر تنخواہ کام کرنے والے نوآموز صحافی اور ‘بابا رحمت’ کی نظر


یوں تو ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلو ہیں، بہت سے رخ ہیں، جائز و ناجائزسب چل رہا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں سے بات کرو تو ان سے ہونے والی پیشہ وارانہ زیادتیوں کی ایک لمبی فہرست سامنے آجاتی ہے۔ مگر آج، میں نے قلم اٹھایا ہے ان لوگوں کے حق کے لئے جنہیں آپ میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ وہ بھی اس معاشرے میں موجود ہیں اور آپ ہی کی طرح کسی دفتر میں آٹھ گھنٹے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت کے لئے کام کر رہے ہیں صرف اس آس میں کہ انہیں بھی مستقل روزگار ملے اور وہ بھی اپنی پڑہائی لکھائی کو کسی ٹھکانے لگا کر گھر کی گاڑی کے پہیے کو چلانے میں مدد گار ثابت ہو سکیں۔ میں بات کر رہی ہوں ‘ان پیڈ انٹرنز’ کی۔ یعنی بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے نو آموز۔

یہ وہ مسئلہ ہے جسے ہم سب بہت عام خیال کرتے ہیں ۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے، جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص صبح سے لیکر رات تک محنت کرتا نظر آتا ہے پھر چاہے وہ اونچے گریڈ کا افسر ہو جسے زندگی کی ہر آسائش ہر سہولت میسرہے یا پھر کسی فیکٹری میں معمولی سی ملازمت کرنے والا ادنیٰ سا مزدور جو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے دن رات ایک کرتا ہے۔ اسی محنت اور لگن سے ہمارے انپیڈ انٹرنز بھی کام کرتے ہیں،۔ پڑہائی سے فارغ ہوتے ہی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نوکری نہ سہی کہیں انٹرن شپ ہی مل جائے۔ لالچ صرف دوباتوں کا، ایک کام سیکھ جائیں اور دوسرا شاید اسی دفتر میں نوکری بھی مل جائے۔ اسی لئے بیچارے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح ان کے کام کی وجہ سے اعلیٰ افسران کی نظران پر پڑ جائے اور ان بیچاروں کو بھی چار پیسے نہ سہی کم از کم دو پیسے ہی مل جاہیں۔ کوئی محنت کوئی کوشش کوئی جتن ہی کام آجائے مگر نہیں جناب!

ہمارے بیشتر اعلیٰ افسران کا خاصہ ہے کہ جب تک نئے آنے والے بچے، بچیوں کی مکمل طور پر حوصلہ شکنی نہ کر دی جائے ان کے خوابوں کو توڑ نہ دیں، ان کے ارمانوں کا قتل نہ کردیں، بات بات پر آپ ابھی ناتجربہ کار ہو، ہم تو آپ کو سکھا رہے ہیں، تو پیسے کس بات کے؟ جیسے زہرآلود طعنے نہ دے دیے جائیں تب تک ان کو اپنے ” سینئر ” ہونے کا یقین نہیں آتا۔ کیا یہ ہمارے ان نوجوانوں کےساتھ زیادتی نہیں جنھوں نے ابھی پیشہ وارانہ زندگی کی پہلی سیڑہی پر قدم رکھا ہے، جن کی آنکھوں میں لاتعداد خواب ہیں، بیشمار امیدیں ہیں، جو یہ سوچ کر گھر سے نکلے ہوں کہ کچھ بننا ہے، نام کمانا ہے، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے، ماں باپ کا سہارا بننا ہے اور ملک کا نام روشن کرنا ہے۔ مگر ان کو کیا پتا ہوتا ہے کہ گھر سے باہر ان کا واسطہ معاشرے کے ان قصابوں سے پڑے گا جو انکے ارمانوں کا گلا کاٹ ڈالیں گے، انکے خوابوں اور حوصلہ کو یوں کرچی کرچی کریں گے کہ وہ دوبارہ کبھی خواب نہیں دیکھیں گے اور اگر دیکھیں گے بھی تو خواب دیکھنے سے پہلے ایک بار سوچیں گے ضرور۔

میں بھی گذشتہ کئی ماہ سے ایک نیوز چینل میں ان پیڈ انٹرن ہوں۔ کام پورا کرتی ہوں، دفتر آنے جانے کا خرچہ بھی ماں باپ کی جیب سے بھرتی ہوں یہاں تک کہ انٹرن شپ کا جتنا وقت تھا وہ ختم ہو چکا اس کے بعد سے اعلی افسران کے لاروں میں وقت گزار رہی ہوں کہ پیسے ملنے شروع ہو جائیں گے آپ بس دل لگا کر کام کریں۔ ویسے تو آج کل میڈیا کے بیشتر اداروں میں مستقل ملازمین بھی پیسوں کے لئے ہر مہینے روتے دھوتے نظر آتے ہیں مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے انٹرن شپ والوں پر اعلی افسران کی نظر خاص ہے کہ بس جس حد تک ہو سکے قوم کے اس مستقبل کو چونا لگایا جائے۔

اور جب مجھ جیسا کوئی زیادہ جذباتی ہو جائے اور سوال کر بیٹھے ، تھوڑی ہمت کا مظاہرہ کر کے اپنے جائز حق کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو اس کو بس ایک ہی لالی پاپ تھما دیا جاتا ہے اور وہ ہے بس تین ماہ، بس دو ماہ بس ایک ماہ اور، ارے اب تو کچھ ہی عرصہ رہ گیا ہے، حوصلہ کرو، ہمت نہ ہارو، ہم سب بھی اسی دور سے گزرے ہیں۔ اور بس پھر کیا تاریخ آنے پر ملتی ہے تو بس اگلی تاریخ۔

آخر میں بس میں ایک گزارش کرنا چاہتی ہوں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے کہ براہ مہربانی اس معاملے پر بھی تھوڑی توجہ دیں ، عوام کے بہت سے مسائل آٌپ حل کر رہے ہیں یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میرے جیسے نوجوان جو عملی ذندگی میں داخل ہوتے ہیں کچھ کر دکھانے کے عزم کے ساتھ بالکل اس فصل کی مانند ہیں جو کھیتوں میں پک چکی ہے اورکٹنے کیلئے تیار ہے۔ اس فصل کے کٹنے کے بعد خوشحالی کا دور آنا چاہئیے لیکن اسی طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوتی رہی تو بخدا یہ نوجوان پھر زندگی کے کسی میدان میں اپنا کھویا اعتماد بحال نہیں کرسکیں گے۔ خدارا صحافیوں کی تنخواہوں کے معاملہ کے ساتھ ساتھ کئی کئی مہینوں سے بغیر کسی پیسے کے کام کرنے والے ہم جیسے نوجوانوں کا بھی کچھ سوچئیے تا کہ ہماری زندگی کی گاڑی بھی کسی منزل کی جانب چل نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).