ترکی کے انتخابات: کیا جدید ترکی کبھی اتنا منقسم رہا ہے؟


ایک ووٹر اپنی بیٹی کے ساتھ

ترکی کے چھ کروڑ عوام آج ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈال کر حالیہ صدر رجب طیب اردوغان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو حکومت میں ایک اور موقع دینے کے بارے میں فیصلہ کرینگے

ترکی میں آج صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ منعقد ہورہے ہیں۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت ان کا انعقاد وقت سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے کروا رہی ہے۔ ترکی کے حالیہ صدر رجب طیب اردوغان وقت سے پہلے انتخابات کروا کر اپنی سیاسی برتری کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

ترکی کے چھ کروڑ عوام آج ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈال کر حالیہ صدر رجب طیب اردوغان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو حکومت میں ایک اور موقع دینے کے بارے میں فیصلہ کرینگے۔ رجب طیب اُردوعان نے اس امید کے ساتھ قبل از وقت ان انتخابات کا انعقاد کروایا ہے کہ وہ وزیر اعظم کا کردار محدود کر کے صدر کے عہدے کو مکمل اختیار دے سکیں۔ یہ انتخابات تقریباً سال بعد نومبر 2019 میں ہونے تھے۔

مزید پڑھیئے

ترکی الیکشن: ‘کیا ہم کل عثمانی تھپڑ لگائيں گے؟’

ترکی میں تاریخی ریفرنڈم

‘بس بہت ہوا’ ترکی کے صدر کے لیے انتباہ

رجب طیب اردوغان نے آج صبح اپنا ووٹ استنبول میں واقع ایک پولنگ سٹیشن میں ڈالا اور اپنے حمایتیوں کے نعروں کی گونج میں پولنگ سٹیشن سے باہر آۓ۔

رجب طیب اردوغان 2014 میں ملک کے صدر منتخب ہوۓ تھے۔ اس سے پہلے وہ گیارہ سال تک، 2003 سے 2014 کے درمیان ، ترکی کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور اُنکی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی لگ بھگ 2002 کے بعد سے ہونے والے ہر عام انتخابات میں اکثریت سے جیتتی آئی ہے۔

طیب اردوغان کے اہلیہ امین اردوغان

طیب اردوغان کے اہلیہ امین اردوعان دارالحکومت استبول میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے

مگر اب صورت حال مختلف ہے۔ ترکی میں جولائی 2016 میں چند فوجی حلقوں کے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے بعد لگنے والی ایمرجنسی اب تک نافذ ہے اور رجب طیب اُردوعان کو عوام کی پہلے والی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی 2016 سے لے کر اب تک ترک حکومت نے تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کو گرفتار کیا ہے۔

ان کو سب سے بڑا سیاسی خطرہ سینٹر لیفٹ کی جماعت، ریپبلک پیپلز پارٹی کے امیدوار محرم انجے سے ہے۔ محرم انجے نے اپنی جارہانا کیمپین کے ذریعے حزب اختلاف کی جماعتوں کو متحرک کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنا ووٹ استنبول کے جنوبی علاقے یالوا میں ڈالا جس کے بعد انھوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوۓ کہا:

’مجھے امید ہے کہ یہ (الیکشن) ہمارے ملک اور عوام کے لیے اچھا ثابت ہو گا۔ خدا کرے جو نتیجہ نکلے، وہ ملک کے لیے بہتر ہو۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔‘

جبکہ سنیچر کو ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے محرم انجے نے کہا تھا کہ اگر وہ ایلکشن میں جیت جاتے ہیں تو وہ 48 گھنٹوں کے اندر نافذ ایمرجنسی کو ختم کر دینگے اور ترکی کی عدالتیں آزاد ہونگی۔ انھوں نے کہا کہ اگر صدر اردوغان کی حکومت جاری رہی تو ترکی میں خوف کا ماحول جاری رہیگا۔

ترکی میں صدارتی امیدوار کو جیتنے کے لیے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینا لازمی ہے اور اگر رجب طیب اُردوعان اور محرم انجے اس میں ناکام ہوتے ہیں تو دو ہفتے یعنی سات جولائی کو دوبارہ انتخابات منعقد ہونگے۔

مگر صدر اردوغان کے خلاف محرم انجے کے علاوہ چار دیگر امیدوار بھی صدارتی انتخابات میں کھڑے ہو رہے ہیں جن میں سابق وزیر داخلہ میرال اکشنیر اور کرد حمایتی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیلاحتین دمیرتاش بھی ہیں۔

میرال اکشنیر ایک نیشنلسٹ جماعت ای پارٹی کی سربراہ ہیں جس نے ایک اتحاد بھی بنایا ہوا ہے۔ جبکہ کرد حمایتی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیلاحتین دمیرتاش ایک سخت پہرے والی جیل سے صدارتی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انکو دہشتگردی کے الزامات کے باعث گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مگر سیلاحتین دمیرتاش ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

ترک عوام

ترکی کے عوام کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت اور دہشتگردی ہے

ترکی کے عوام کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کمزور معیشت اور دہشتگردی ہے۔ ترکش لیرا کی مد میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور ملک میں کرد میلیشیا اور دولت اسلامیہ کی جانب سے دہشتگرد حملے بھی ہو چکے ہیں۔

آج سخت سیکیورٹی کے ساتھ ووٹنگ کاآغاز ہوا ۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں ہی تقریباً اڑتیس ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

استنبول کے ایک شہری توران سابُنجو صبح آٹھ بجے ووٹ ڈالنے گئے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’خدا کرے اس الیکشن کا نتیجہ ہمارے ملک اور عوام کے لیے اچھا نکلے۔ میں امید کرتا ہوں کہ بہترین امیدوار کامیاب ہو۔ صبح آٹھ بجے پولنگ سٹیشن پر اتنا رش حیران کن ہے۔ عوام بہت دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔‘

ترکی کے جنوب مشرق میں واقع کرد اکثریت علاقے دیاربکر میں تشدد کا خطرا ہے۔ وہاں رہنے والی بتول یاسا نے کہا ’میں چاہتی ہوں کہ انتخابات میں امن، انصاف، بھائی چارا، برابری اور جمہوریت جیتے۔‘

بی بی سی ترکی کے نمائندے مارک لوئن کے مطابق ترکی کی جدید تاریخ میں یہ ملک کبھی اتنا منقسم نہیں رہا اور نہ ہی رجب طیب اردوغان کو اس سے قبل اتنے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جدید ترکی کے بانی کمال عطا ترک کے بعد ترکی کے سب سے طاقتور رہنما کو اگر کامیابی ملتی ہے تو وہ مزید طاقتور ہو جائیں گے اور وہ وزیر اعظم کی پوسٹ کو ختم کرکے پارلیمان کو کمزور کریں گے۔

اگر ان انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتیں اکثریت حاصل کرتی ہیں تو ترکی کے سیاسی ماحول میں کافی تبدیلیاں آئیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp