انتخابات بروقت کروانے میں کوئی حرج نہیں


چند ہی روز قبل ایک مو¿ثر ومعتبر معاصر میں چھپنے والے ایک کالم کا حوالہ دینے پر مجبور ہوگیا تھا۔ یہ کالم منصور آفاق صاحب لکھتے ہیں۔ ان سے ملنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا مگر ان کے کالم پڑھنا ذہن کو صاف رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ وہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبر دے کر ان کے لئے تحریک انصاف کے چنے امیدواروں کے نام بتاکر مجھ ایسے گھروں میں بیٹھے سست الوجود لوگوں کو قائل کردیتے ہیں کہ ”عمران آرہا ہے“۔

گزرے جمعے کے دن چھپنے والے کالم کے ذریعے لیکن انہوں نے مجھے پریشان کردیا۔ پیغام انہوں نے یہ دیا کہ اس ملک کے روایتی دشمنوں اور یہاں موجود ان کے کارندوں کو خان صاحب کی متوقع کامیابی کی فضاءہضم نہیں ہورہی۔ خان صاحب کو روکنے کے لئے لہذا ”منظور پشتین“ ابھرآئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی بھی اتاولے ہورے ہیں۔ حتیٰ کہ کراچی کو کئی برسوں تک چٹکی بجاکر چلانے یاجام کرنے کی قوت سے بالآخر محروم ہوا ”بانی“ بھی ایک بار پھر گڑبڑکے منصوبے بنارہا ہے۔

ہر ملک کی تاریخ میں ایسے مراحل آتے ہیں جب ریاست بچانا ضروری ہوجاتا ہے۔ عمران خان صاحب کا وزیر اعظم منتخب ہونااٹل ہے اور وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری بھی۔ پاکستان کی عمران خان صاحب کی قیادت میں ترقی اور خوشحالی کے امکانات کے روکنے کے لئے مگر جو گیم لگائی جارہی ہے اسے ناکام بنانا بھی لازمی ہے۔

وطنِ عزیز کو ”منظور پشتین“ جیسے افراد کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ بنانا وقت کا تقاضہ نظر آرہا ہے۔ ریاست اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ اس کے اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا۔ دشمنوں کی لگائی گیم کو ناکام بنانے کے لئے تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔یہ بات تو عیاں ہے کہ ریاست بچانے میں صرف ہوئے ان تین یا چار ماہ کے دوران انتخابات نہیں کروائے جاسکتے ۔ انہیں ملتوی کرنا ہوگا۔

یہ کالم پڑھنے کے بعد میرے ذہن پہ چھائی اداسی اور پریشانی میں ایک باخبر دوست نے جمعے کی شام ہی میرے گھر تشریف لاکر مزید اضافہ کردیا۔ اطلاع انہوں نے یہ دی کہ قبائلی علاقوں میں جو اب ”علاقہ غیر“ نہیں خیبرپختون خواہ صوبے کا باقاعدہ حصہ بنادئیے گئے ہیں، یہ مطالبہ بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے کہ پاکستان کے بقیہ حصوں کی طرح وہاں بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروائے جائیں۔

اس مطالبے پر اصرار کے لئے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا شروع ہونے والا ہے۔ہزاروں افراد اس دھرنے میں شرکت کے متمنی ہیں۔ وہ لوگ اسلام آباد آکر بیٹھ گئے تو امن وامان کے شدید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ مشتعل ہوئے افراد کی تسلی کے لئے صوبہ خیبرپختونخواہ کا حال ہی میں حصہ بنائے علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروانے کا یقین دلانا ہوگا۔ اس وعدے کی تکمیل بھی لیکن 25جولائی 2018کے روز ممکن نہیں۔ انتخابات کا دو سے تین ماہ تک التوا ضروری ہوجائے گا۔

دنیا سے کٹ کراپنے گھر میں گوشہ نشین ہوا مجھ ایسا بے خبر انسان ہرگز اس قابل نہیں کہ اعتماد کے ساتھ اس دعوے کی تصدیق یا اسے جھٹلاسکے کہ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے سے روکنے کے لئے وطن دشمن یکسوہوکر تخریبی کارروائیوں پر تلے بیٹھے ہیں۔

وطنِ عزیز کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہمارے ہاں مضبوط ادارے موجود ہیں۔ وہ سکیورٹی کے حوالے سے ابھرتے خطرات کو بھانپنے اور انہیں ٹالنے کے لئے ہی بھرپور انداز میں تیار کئے گئے ہیں۔ ان کا عمومی رویہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ انتخابات بروقت ہوں گے۔ چیف جسٹس صاحب کا وعدہ بھی یہی ہے اور نگران وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کسی بھی صورت اپنے اقتدار کو طول دیتے نظر نہیں آرہے۔

نواز شریف صاحب کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہلی کے بعد ان کے نام سے جڑی جماعت کے Electables اگرچہ حواس باختہ ہیں۔ کئی ایک تحریک انصاف کے سایہ¿ عافیت میں جاچکے ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو نواز شریف کے لئے پائی جانے والی ہمدردی کا ووٹ لینے کے بعداسمبلیوں میں پہنچے تو Pragmaticہوجائیں گے۔

ایسے ماحول میں انتخابی اکھاڑہ عمران خان صاحب کے لئے Favorableنظر آرہا ہے۔ انتخابات کا التواءتو رنگ میں بہت ساری بھنگ ڈال دے گا۔ حتمی نقصان اس کا خان صاحب کو ہوگا۔ وہ 2018کے اصغر خان بن جائیں گے۔

حقیقت خواہ کچھ بھی رہی ہو خلقِ خدا کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گی کہ ا نتخابات محض اس وجہ سے ملتوی ہوئے کیونکہ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی تھی۔

”مجھے کیوں نکالا“ کی وجہ سے نون کم از کم واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھررہی تھی۔ وفاق کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تخت لہور کو شہباز شریف کی لگائی ٹیم سے ”آزاد“ کروانا بہت مشکل دِکھ رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے لئے مسلم لیگ نون کی جانب سے بے تحاشہ ایسے ا میدوار میدان میں موجود ہیں جو مسلم لیگ کے ووٹ بینک کو دھڑے کی قوت کے ساتھ ملاکر اپنے مخالفین کو مناسب اکثریت سے شکست دینے کی واضح صلاحیت کے حامل ہیں۔

سوال میرے ذہن میں یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ شہباز شریف سے کوئی ذی ہوش شخص تخت لہور انتخابی عمل کو ملتوی کروانے کے ذریعے کیوں چھینناچاہے گا۔شہباز صاحب بہت تابعدار آدمی ہیں۔اداروں کی اہمیت جبلی طورپر سمجھتے ہیں۔ بڑے بھائی کے سامنے زبان نہیں کھولتے۔ ان کی معاونت کے لئے مگر خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق جیسے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے والے افراد موجود ہیں۔ اب تو چودھری نثار علی خان صاحب کی بات بھی مان لی گئی ہے۔

بیگم کلثوم نواز شریف صاحبہ کی علالت نے ویسے بھی نواز شریف اور مریم بی بی کو مزید کئی دنوں کے لئے لندن میں رُکے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔انتخابی مہم سے ان کی دوری مسلم لیگ نون کی ٹکٹ کے ساتھ کھڑے امیدواروں کو تخریبی خیالات سے یقینا دور رکھے گی، وہ اپنی ساری توجہ اپنے حلقوں پر مرکوز رکھیں گے اور انتخابی مہم کو روایتی انداز میں چلانے پرمجبور ہوں گے۔

مسلم لیگ نون میں تابعداری کا رحجان نمایاں ہونے کے بعد انتخابات کو ملتوی کرنے کا جواز میرے لئے ڈھونڈنا کافی مشکل ہورہا ہے۔ خاص کر اس وجہ سے بھی کہ شہباز صاحب کی تابعداری کا مقابلہ اس تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے جو ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ والے ذہن کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اُتری ہے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).