احمد ندیم تونسوی کی جوکرومیٹری


1۔ پیش لفظ
ابھی کچھ دیر پہلے ایک صاحب کی دو سو پانچویں کتاب بہ عنوان۔ ”گھاس پر لکھی تحریر‘‘کا فلیپ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ آں جناب  نہ صرف اردو ادب کے سب سے بلند پایہ افسانہ نگار اور شاعر ہیں بلکہ انتہائی گراں قدرمؤرخ، محقق اور نقاد بھی ہیں، مزید براں ان کی شخصی وجاہت، تعلیمی کامرانیاں، پیشہ ورانہ فتوحات، خاندانی نجابت اور کامیاب عشقیہ وارداتیں بھی ہر پہلو اور ہر زاویے سے ستائش طلب اور قابلِ تحسین ہیں۔

ایک بار پھر متن کو حرف بہ حرف پڑھا، فلیپ نگار کا نام دیکھا اور اسلوب شناسی کی سعی کی تو شیکسپئر کا مقولہ بہت یاد آیا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ موسٰی کے پردے میں خدا کو بولتے سنا، دل کو سکوں روح کو آرام آگیا۔ پھر صاحب ِکتاب پر ایک دم ٹوٹ کے پیار آیا اور ان کی وضع داری پر رشک کرنے کو جی چاہا کہ چونکہ تعّلی کوسخت ناپسند کرتے تھے، اس لئے قصیدے سے کام لیا۔ اُسی لمحے ایک آوارہ خیال نے سر اٹھایا، سوچ بھٹکی، احمد ندیم تونسوی کاچہرہ نمودار ہوا اور اُس کی نازائیدہ کتاب کے کنوارے صفحات ایک ایک کر کے پھڑپھڑاتے چلے گئے۔
”جوکر۔ ہاہا۔ جوکر۔ اور معلوم ہے؟ تاش میں جوکر کی اپنی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ‘‘ موسیو نے میری ران پر ہتھڑ مارتے ہوئے کہا۔
”آخر وہ کون سی طاقت ہے جو اشیاء، الفاظ اور افراد کو دھکیل کران کے تضاد کی طرف لے جاتی ہے۔ ‘‘ میں نے زندگی کے تاش گھاٹ کی کھردری زمین پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچا۔

2۔ پہلی ملاقات
میں غالب، میر، اقبال اور فیض کے علاوہ کسی کو شاعر تسلیم نہ کرتا تھا۔ آزاد نظم کو صریحاً بے وزن اور طفلان ادب کی سوغات سمجھتا تھا تاہم نثری نظم کی قدرو منزلت سے آگاہ تھا(یعنی اسے لطیفوں والے فولڈر میں محفوظ کر لیا کرتا )۔ غا لبًا 2006 کی بات ہے۔ میرا مطالعہ ابھی صرف کلاسیک تک محدود تھا اور میرے نزدیک ایک افسانہ نگار کی معراج یہ تھی کہ وہ آج کی کہانی لکھے مگر اُس کا طرزِتحریر منٹو، کرشن، چندر، چیخوف، موپساں، قاسمی اور غلام عباس جیسا ہی ہو اور اگر وہ اس طرح سے نہیں لکھ سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اسے طویل ریاضت اور کڑی تپسیا درکار ہے۔

انہی دنوں احمد ندیم تونسوی کا افسانہ ”جوکر‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کافی محنت مشقت اور جاں فشا نی کے بعد محض اتنا جان پایا کہ تاش کے پتوں کے گرداگرد لپٹے ہوئے تین کرداروں کو کچھ اس طرح سے تین ابواب میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ آخر میں کہانی کے ڈانڈے استادمنٹو کے معروف اور متنازعہ افسانے ”ٹھنڈا گوشت‘‘ سے جا ملتے ہیں۔ کہانی بری نہیں تھی، زبان نے بھی کافی لطف دیا مگر ابواب کی تقسیم اور ایشتر سنگھ عرف ٹھنڈاگوشت کے اذکار ہضم نہ ہو پائے۔ ایک اور بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ تاش کے علوم میں میری استعداد محض ڈکیتی تک محدود تھی جو ایک چار سالہ نونہال سے کچھ ہی زیاد ہ تھی۔ جلد ہی کچھ اس طرح کا حلقہ احباب بن گیاکہ تاش کے حوالے سے میری معلومات کافی اپ ڈیٹ ہو گئیں تاہم ادب کے حوالے سے کوئی خاص ارتقاء نمو پذیرنہ ہو سکا۔ اسد محمد خان، صغیر ملال، خالد اختر اور مرزا اطہر بیگ نظر سے ضرور گزرے لیکن بہ صد افسوس، احمد ندیم تونسوی کی طرح یہ تمام اصحاب بھی کافی بدعت پسند واقع ہوئے تھے جبکہ میں فرہاد کو تیشے کے علاوہ کسی بھی چیز سے مرنے کی اجازت دینے پر ہرگز تیار نہ تھا۔

3۔ جوکر سے مکالمہ
اور آج جب میں اُس زمانہ جاہلیت کو الوداع کہہ چکا ہوں (یعنی ایک نئے زمانہ جاہلیت میں سانس لیتا ہوں )اور اپنے سابقہ تعصبات کی سال خوردہ عینک کے دھندلے شیشے اتار کر دیکھنے پر قادر ہوں تو” موسیو‘‘ اور ”نیلاب احمر ‘‘سے بات ہو سکتی ہے اور ”جوکر‘‘ سے مکالمہ ناممکن نہیں رہا۔

لیجیے کہانی شروع ہوتی ہے۔ پہلے باب کا نام بادشاہ، بیگم اور غلام ہے اور تکنیک کے اعتبار سے یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ایک دو کرداری مکالمہ ہے جس میں موسیو اور راوی یعنی صیغہ واحد متکلم منٹو کے افسانے ٹھنڈا گوشت، اس کے مرکزی کردار ایشر سنگھ کی نفسیات اور سماج کی مڈل کلاس اخلاقیات کو ڈسکس کر رہے ہیں۔ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو ان دونوں کرداروں کے بیچ میں ایک گہری دوستانہ فضانظر آتی ہے لیکن متن پر غور کیا جائے تو موسیو اور راوی کے درمیان ایک ماسٹر سلیو، ری لیشن شپ کی مخفی سی لہر رواں ہے۔ دوسرا حصہ فلیش بیک پر مبنی ہے جس میں زیادہ بیانیہ اور خال خال مکالمے کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ حصہ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں موسیو اور راوی کی پہلی ملاقات، ان دونوں کے باہمی تعلق کی ڈائنامکس، موسیو کے فلرٹس اور ارود ڈیپارٹمنٹ کی نیلاب احمر جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ فلیش بیک تکنیک کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے ذریعے کہانی کو ایک وائڈر اینگل پرلے جا کے دکھا دیا گیا ہے جہاں موسیو اور راوی کی نفسیات کے کئی قابلِ ذکر گوشے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

پہلے موسیو کی بات کرتے ہیں۔ اْسے تاش کے بادشاہ کے ساتھ کو۔ریلیٹ کیا گیا ہے جو بیگم اور غلام سے بڑا پتا ہوتا ہے۔ موسیو غیر معمولی طور پر گفٹڈ ہے۔ ایک جانب تو وہ کھلنڈرا، شاہ خرچ، پر اعتماد، پاپولر، وجیہہ اور امیر کبیر ہے تو دوسری جانب ذہین، سمجھدار اور صائبِ الرائے بھی ہے جس کے باعث وہ اپنے سسٹم یعنی یونی ورسٹی کے ایک بڑے حلقے کی توجہ کامرکز بن جاتا ہے۔ اُس کی اپنی نرگسی اخلاقیات ہیں جن کا سب سے نمایاں پہلو چیلنج قبول کرنا ہے۔

موسیو اگر بادشاہ ہے تو راوی غلام ہے جس کی ذات کے سب سے نمایاں پہلو، تشنگی اور احساسِ کمتری ہیں جن کے بوجھ تلے دب کر اس کیذہانت اور اس کا اعتماد دونوں ہی چرمراجاتے ہیں۔ موسیو اور راوی ایک دوسرے کی ضد ہیں اور غالبًا یہی ان کے تعلق کا جواز بھی ہے۔ موسیو اور راوی نے پہلے باب کے اختتام تک بادشاہ اور غلام کی علامت کو پوری طرح سے جسٹی فائی کر دیا ہے البتہ نیلاب احمر بیگم کے سانچے میں نہیں ڈھل پائی کیونکہ اس کا کردار بدستور ایک گھپ تاریکی (بلکہ نیلاہٹ )میں چھپا ہے۔

دوسرا باب بہ عنوان ”ترپ کی چال ‘‘افسانے کا فلکرم ہے جس کے گرد ساری کہانی ایک واضح ٹوئسٹ لیتی نظر آتی ہے۔ موسیو اپنے بہاؤ اور اپنے رنگ سے نکل کر نیلاب احمر کے نیلگوں طلسم کا اسیر ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ ایک لمحۂ حیرت نمودار ہوتا ہے اور نیلاب احمر کسی معمول کی طرح موسیو کے مقناطیسی مدار میں داخل ہو جاتی ہے۔ زمان ومکاں کے حوالے سے دیکھاجائے تو کہانی کا لوکیل بالکل نہیں بدلا تاہم وقت کا بہاؤلینیئر ہو گیا ہے۔ زبان بدستور رواں اور متحرک ہے جیسے بریکٹس کا عمدہ اور برمحل استعمال مزیدشارپ کر دیتا ہے۔ اگر دوسرے باب کے اختتام پر کہانی کو ایک بار پھر ڈی کنسٹرکٹ کیا جائے تو بیگم کی پیش قدمی اور بادشاہ کے والہانہ پن کو دیکھنے کے بعد راوی ہی وہ جوکر ہے جس کی اپنی کوئی جگہ نہیں اور وہ پہلے بھی موسیو سے منسلک رہ کر اپنے وجود کا متلاشی تھا اور اب بھی موسیو ہی اس کے ہونے کا سبب اور جواز ہے۔

افسانے کے تیسرے اور آخری باب کا عنوان ”ڈک‘‘ ہے۔ ڈک ایک غیر معمولی چال ہوتی ہے جس کا انجام کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اپنے آخری تجزیے میں یہ احمقانہ بھی کہلائی جا سکتی ہے اور جرات مندانہ بھی(صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے)۔ بظاہر تو یہ پورا باب ایک منظم اکائی ہے مگر دراصل اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ راوی کی خود نوشت ہے جس کے نمایاں اجزاء کزن سے شادی، دیہاتی سکول میں نوکری اور چار عدد بچوں کی پیدائش ہے۔ ملحوظ ِ خاطر رہے کہ پہلی بار افسانہ نگار نے ٹائم اور سپیس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے اور فلیش فاروڈ تکنیک کے ذریعے نہ صرف ایک پورے عشرے کی روداد بیان کی ہے بلکہ افسانے کو یونی ورسٹی اور انگلش ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین سے اٹھا کر راوی کے دیہات میں شفٹ بھی کر دیا ہے تاہم زمان ومکان کی اتنی برق رفتار تبدیلی کے باوجود راوی اپنی زبان بدلنے پر آمادہ نہیں۔

”ڈک‘‘کا دوسرا حصہ ایک طویل مکالمے پر مشتمل ہے جس کا آغاز نو سٹیلجیا کی ایک مدھر اور ملائم رو سے ہوتا ہے جو بالآخر موسیو اور راوی کی ایک طویل ملاقات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ راوی یہ جان کر دنگ رہ جاتا ہے کہ نیلاب احمر موسیو کی شریکِ حیات ہو چکی ہے اور دفعتًا نیلاب کا ادھورا اور اندھیرے میں چھپا کردار سپاٹ لائٹ میں آ جاتا ہے جس کو اپنا بنیادی فوکس مان کر موسیو اور راوی کا ایک طویل مکالمہ افسانے کی تمام الجھی ڈوریں سلجھا تا چلا جاتا ہے۔ ہمیں یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ نیلاب احمر کو اس کا سوتیلا باپ ریپ کرتا ہے اور جس روز اُس کا سوتیلا باپ اس کو ریپ کرتا ہے اس روز وہ نیلے رنگ کا لباس پہنے ہوتی ہے۔ یوں تو نیلا رنگ مشرقی روایت میں تصوف اور مغربی روایت میں تنہائی کا رنگ ہے مگر نیلاب احمر کا ذاتی تجربہ یعنی ریپ کے عمل سے گزرنے کا کرب نہ صرف اسے ایک خاص لمحے میں منجمد کر دیتاہے بلکہ نیلے رنگ کو بھی اسی فکسیشن کا حصہ بنا دیتا ہے۔ پھر اس کے بدن کی گرمائش مزید کسی لمس کا بوجھ سہارنے کی اہل نہیں رہتی۔ جبر، کراہت اور اِن کے بطن سے پیدا ہونے والی بے بسی، نیلاب کو ایک ایسے لمبو (Limbo)میں دھکیل دیتی ہے جہاں چھوئے جانے کا مطلب ٹھنڈا پڑنا اور برف ہونا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک عورت کی جنسی موت، ایک فرد کی شکست اور اس کے سیلف ڈیفینس مکینزم کی ناکامی ہے مگر یہ آمریت اور استحصال کے خلاف ایک عورت کا خاموش احتجاج بھی تو ہے جس نے اندر ہی اندر ٹوٹنے، تڑخنے اور چٹخنے کے بجائے اپنے بدن کو ایک ایسے برفانی گلیشیر میں تبدیل کر دیا ہے جسے تسخیر کرنا اب کسی بھی مرد کے بس کی بات نہیں۔ یوں زندگی کے اس پیچیدہ کھیل میں نیلاب کی شکست ایک اور حوالے سے اس کیجیت کا اعلان بھی ہے۔

ٹھیک اُسی لمحے جب نیلاب احمر کے کردار کی پرتیں کھلتی ہیں، ”موسیو دی فلرٹ‘‘ کا کردار الجھ جاتا ہے۔ وہ راوی کو بتاتا ہے کہ نیلاب سے پہلے جتنی بھی لڑکیوں کو ہوٹل کے کمروں میں لے کر گیا تھا، انہیں چھوئے بغیر ہی پلٹ آیا۔ غالبًا موسیو کی چیلنج قبول کرنے والی فطرت، فتح کے پہلے احساس کے ساتھ ہی پیش قدمی کی ترغیب دینا بند کر دیتی ہے۔ وہ کسی عورت کی مکمل خود سپردگی کے بارے میں جان لینے کے فوراًبعد اپنی بے پایاں نرگسیت کے دائرے میں قید ہو جاتا ہے جو اتنی کمپلیکس ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا وجود سونپنے کا روادار نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے لہو میں رواں اجتماعی سرشت کا دھارا، اُس کی شخصی انفرادیت کے ساتھ مسلسل حالت ِجنگ میں ہے اس لئے وہ مرد سے زیادہ ایک فرد بن کر سوچتا ہے جس کے ہاں کسی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کے وسیلے اپنی ذات کی توسیع، ایک مہمل اور بے معنی چیز ہے۔ شاید نیلاب احمر کے سوا کوئی بھی عورت موسیو کو پورا کرنے کی اہل نہ تھی کیونکہ ایک تعلق کی چھاؤں تلے مسلسل ادھورے رہنے کا احساس ہی اس کی تکمیل ہے۔ نیلاب احمر کا ٹھنڈا بدن، جو دراصل ایک خارجی جبر کا شاحسانہ ہے، موسیو کے انحرافی ذہن کے لئے ایک کبھی نہ ختم ہو پانے والاچیلنج ہے، اِسی لئے وہ زندگی بھر نیلاب سے فلرٹ کر سکتا ہے۔

جوکر کہنے کو تو محض نفسیاتی حقیقت نگاری ہے مگر نفسیات کی عمیق گہرائیوں سے پرے ایک جہانِ رنگ و بو اور بھی ہے جہاں رومان کے ست رنگے پھول کھلتے ہیں اور جہاں ایک موسیو رہتا ہے جس نے اپنے محبوب کی نیلاہٹ میں خود کو یوں ڈبو دیا کہ اب وہ خود سراپا نیل ہے(جو رہی سو بے خبری رہی)۔ موسیو کا جنس سے ماورا مسلسل محبت کا نظریہ دراصل اس ارتقاع پذیری سے منسوب ہے جہاں محبوب کا تصور فطرت کے لافانی حسن سے کشید کیا جاتا ہے اور جہاں محبوب میں گم ہونا، فطرت میں ضم ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسیوکے لئے نیلاب محض ایک عورت نہیں رہتی بلکہ پربت کی چوٹیوں پر جمی برف ہو جاتی ہے اور جونہی وہ اُس برف کو دیوانہ وار چومتا ہے تو اُس کے ہونٹ نیلے پڑجاتے ہیں اور اُس کا بدن ٹھنڈا ہو جاتا ہے :
I am all bottled up
floating in the deep blue
پھر دور کہیں امیر خسرو کی آوازوقت کا سنگلاخ سینہ چیر تی ہوئی باہر نکلتی ہے :

اور کوئی موہے رنگ ناہیں پائے
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

اُسی لمحے افسانہ نگار، بہ زبانِ راوی اپنا تھیسس ایک سوال کے ریپر میں ملفوف کرتا ہے اور ہماری جانب اچھال دیتا ہے۔

”میں بھی گیلی آنکھوں سے شیشے کے اس پار ْان کے جھلملاتے نیلے عکس دیکھتا رہا، جب تک نظر آتے رہے اور سوچتا رہا کہ کون کس سے کیا ہارا اور کون کس سے کیا جیتا۔ نیلاب احمر شادی کے بعد بھی نیل احمر ہی رہی۔ موسیو کا نام بھی تو احمر تھا۔ علی احمر۔ ‘‘

اور میں زندگی کے تاش گھاٹ کی کھردری زمین پر آلتی پالتی مار ے، ایک عالمِ تحیّر میں یہ سوچ کر لرزے جاتا ہوں کہ موسیو جو ابتدا میں اس سارے کھیل کا بادشاہ تھا اور جسے چاہتا اپنے ہی رنگ میں رنگ لیتا، اب محض ایک رنگ برنگا جوکر ہے کہ جیون تاش میں جس کی اپنی کوئی جگہ نہیں۔ بالآخر اپنے ہی تضاد میں وہ اس مقام پر آ پہنچا کہ جس کے آگے، کوئی راستہ، کہیں نہیں جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).