کچھ آسیب زدہ باتیں


ہمارے ہاں اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا آپ جنوں بھوتوں کو مانتے ہیں تو اکثریت یہ کہے گی کہ بھوت یعنی بھٹکی ہوئی آتما تو ذہنی اور فلمی اختراع ہے اسے ہرگز نہیں مانتے لیکن چونکہ جن ہمارے مذہب میں ہے اس لیے ہم بھی مانتے ہیں۔ بھئی مذہب میں جس چیز کو جن کہا گیا کیا آپ نے کبھی اسے سمجھنے کے لیے تحقیق کی یا پھر آپ نے صرف ان لوگوں کی باتوں پر یقین کیا جن کا ”ذریعہ معاش“ ہی کوئی ماوراء عقل باتیں تھیں؟ جن کے پاس اور کوئی ہنر تھا ہی نہیں سوائے آپ کو یہ سب کچھ بیچنے کے؟

دیکھیے میں یہاں آپ کو یہ بتانے نہیں آیا کہ جن ہوتے ہیں یا نہیں میرا مسئلہ جن نہیں ہیں علم کشی ہے، یہاں علم دشمنی کا یہ حال ہے کہ لوگ سنی سنائی ماورائے عقل باتوں پر ایمان لے آتے ہیں لیکن کوئی بھی اس پر تحقیق نہیں کرنا چاہتا، بیشتر کے پاس critical thinking ہے ہی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہماری عقل ہے خدا نے آدمی کو عقل سے بڑی کوئی نعمت عطا ہی نہیں کی، ایمان اور عبادات کی پہلی شرط بھی عاقل ہونا ہے، خدا کے برگزیدہ پیغمبروں نے بھی ایمان پیش کرنے سے پہلے اپنی قوم کے سامنے عقلی دلائل دیے، ابراہیمؑ نے بتوں کو توڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دیا لوگوں نے پوچھا ہمارے بتوں کو کس نے توڑا، کہا اس بڑے بت سے پوچھو، انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ بول نہیں سکتا سن نہیں سکتا، کہا جو نہ بول سکتا ہے نہ سن سکتا ہے نہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کر سکتا ہے وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے، یعنی ابراہیم ع نے عقل سے دلیل دی جادو سے نہیں۔

نبی کریمؑ نے بھی سب سے پہلے لوگوں کو عقلی دلیل دی کہ تمہاری میرے بارے میں کیسی رائے ہے، انہوں نے کہا آپ سچ بولتے ہیں امانت میں خیانت نہیں کرتے، یعنی عقل اور زمینی حقائق ہی سچائی کا بنیادی راستہ ہیں، لیکن اسی عقل میں پیدا ہونے والے جن سوالوں کے پیچھے چل کر قومیں جو ترقی کرتی ہیں ہمارے ہان وہ سوال ذہن میں آنے پر اسے وسوسہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے، ایسے معاشرے جہاں سوال کی حوصلہ شکنی ہو سوال کرنے سے جذبات مجروح ہوتے ہوں بھڑکتے ہوں وہاں راستے بند ہو جاتے ہیں اور بند راستے صرف تباہی لے کر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ستر سالوں سے بھٹک رہے ہیں اور جانتے ہی نہیں ہماری منزل کیا ہے ہمارا گول کیا ہے ہم نے اچیو کیا کرنا ہے، ہم ٹوٹل کنفیوز ٹوٹل لاس ہیں، ہمارے ملک کا نام تک کنفیوزڈ ہے اسلامی بھی جمہوریہ بھی۔

کنفیوژن کا عالم یہ ہے کہ ملک کا نام اور آئین جمہوری ہونے کے باوجود ادھر اکثر لوگوں کے خیال میں جمہوریت ہے ہی غیر اسلامی انہیں خلافت کی ضرورت ہے جبکہ ایک طبقے کو آمریت مزہ دیتی ہے وہ مسلسل جمہوریت کی بینڈ بجاتا ہے اسے ناکام ثابت کرنے میں ہر حد تک جاتا ہے اور عوام کی طاقت کو تسلیم ہی نہیں کرتا اس کی رائے کو ردی سمجھتا ہے اسے احمق گردانتا ہے جسے اپنے اچھے برے کی ہی تمیز نہیں۔ جیسے ان کا اچھا برا کچھ افلاطون اور بقراط کسی کمرے میں طے کریں گے، چند ایک جمہوریت کو عین مذہبی سمجھتے ہیں اور شورائیت سے اس کا جواز لاتے ہیں (جیسے ہمارے ہمسائے ملک کے مسلمان لکم دینکم سے سیکولرازم کا جواز تراشتے ہیں)۔

باقی کچھ لوگوں کے خیال میں ریاست مذہبی جمہوریہ نہیں عوامی جمہوریہ ہوتی ہے کیونکہ اس میں سب مذاہب رہتے ہیں اور ریاست کا کام شہریوں کے مسائل حل کرنا ہے کسی مذہب کا دفاع کرنا نہیں، غرض جتنے منہ اتنی باتیں ٹوٹل کنفیوژن اور بھول بھلیاں یعنی سوال نہ اٹھانے کی وجہ سے (سوشل میڈیا سے باہر) مکالمے کی فضا نہ ہونے کی وجہ سے ہم بالکل بھٹک چکے ہیں، ایک طرف مذہب، شریعت اور نظام مصطفی کا جھنڈا اٹھاتے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارا سارے کا سارا اسلحہ مغرب میں امریکا سے اور شمال میں چین سے آتا ہے آسان لفظوں میں ہمارا دفاع امریکا اور چین کر رہے ہیں ہماری معیشت کا پہلا اور آخری سہارا یہود و نصارٰی کے بینک ہیں، ہم جنگ ہارنے لگتے ہیں امریکا جنگ بند کروا دیتا ہے۔ ہماری معیشت کولیپس ہونے کا انڈیکیٹر دیتی ہے تو آئی ایم ایف مدد کو آتا ہے۔

ہمارا اسی فیصد سے زائد میگا انفراسٹرکچر کفار کی دولت سے بنا ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم مغرب زدہ ہے جس میں اپنی خجالت چھپانے کے لئے ہم نے مذہب کی پیوندکاری ہے یعنی ہمارے پاس کوئی نظام تعلیم تک نہیں لیکن بڑھکیں آسمان پر ہیں، ہماری فوج کی وردیاں رینک یہاں تک کہ بھرتی ہونے اور ریٹاٸرڈ ہونے تک کا سارا نظام سو فیصد کاپی شدہ ہے۔ ہماری حکومتیں کہیں اور بنتی ہیں اور مسلط ہم پر ہوتی ہیں ہم نعرے تو بہت لگاتے ہیں لیکن ہم پر ایسے ایسے لوگ حکمران مسلط رہے ہیں کہ جن کا شہر تک ہم میں سے اکثر نہیں جانتے اگر کسی کو معین قریشی اور شوکت عزیز وغیرہ کے آبائی شہروں کا پتہ ہو تو وکیپیڈیا دیکھے بغیر میرے نالج میں اضافہ کر دے، اس ہجوم کی نا اہلی تنگ نظری اور بے بسی پر اب ہنسی بھی نہیں آتی۔
ہاں تو اب آپ کے خیال میں کیا جنات کے فنکشنز ہوبہو ویسے ہی ہیں جیسے آپ کو کسی نے دوزانو بٹھا کر بتائے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).