کراچی: نئی حلقہ بندیاں ایم کیو ایم کی نظر میں ’قبل از انتخاب دھاندلی‘


کراچی

نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں کراچی کا ضلع غربی یا ڈسٹرکٹ ویسٹ شہر کا سب سے بڑا ضلع بن گیا ہے

پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے حوالے سے جس شہر پر سب کی نظریں لگی ہیں وہ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے جس کی سیاست میں گذشتہ چند برس کے دوران آنے والی تبدیلیوں نے ان انتخابات کو یہاں سے میدان میں اترنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ہی ایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔

ایم کیو ایم ماضی میں کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی رہی ہے مگر اس مرتبہ جہاں اسے اندرونی طور پر تقسیم کا سامنا ہے وہاں وہ رواں برس ہونے والی حلقہ بندیوں سے بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتی۔

الیکشن 2018 پر بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج

ان نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں کراچی کا ضلع غربی یا ڈسٹرکٹ ویسٹ شہر کا سب سے بڑا ضلع بن گیا ہے اور اب یہاں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد چار سے بڑھ کر پانچ کر دی گئی ہے۔ اس کا اثر ایم کیو ایم کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے ضلعے ڈسٹرکٹ سینٹرل پر پڑا ہے جہاں سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں ایک کی کمی ہوئی ہے اور اب یہ تعداد چار ہے۔

ایسی تبدیلیوں کو یہ جماعت قبل از انتخاب دھاندلی کے مترادف قرار دے رہی ہےـ

’90 لاکھ لوگ کہاں ہیں جنھیں آپ نے گِنا نہیں ہے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ حلقہ بندیوں میں جو ناانصافی ہوئی ہے ہم اس کی نشاندہی کررہے ہیں۔

پاکستان

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیوں کی تبدیلی کے طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے

‘مردم شماری کے بعد ڈسٹرکٹ ویسٹ میں چالیس لاکھ کی آبادی دکھائی گئی ہے اور اب وہ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ڈسٹرکٹ بن گیا ہےـ اس کے مقابلے میں سینٹرل، ایسٹ اور کورنگی چھوٹا ہو گیا ہے۔ اس سے جو آبادی اور ووٹرز لسٹ میں اضافہ آ رہا ہے اس سے سب سے زیادہ ایم کیو ایم کو دھچکا پہنچ رہا ہےـ لیکن ہم اس بات کا رونا نہیں رو رہے ہیں، ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نوے لاکھ لوگ کہاں ہیں جنھیں آپ نے گِنا نہیں ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت نے پہلے بھی اپنے تحفظات سامنے رکھے تھے۔ ‘حلقہ بندیوں کی تبدیلی کے طریقہ کار کی نفی کی گئی ہے اور یہ بالکل واضح طور پر قبل از انتخاب دھاندلی ہے۔’

’ایم کیو ایم کی مرضی سے حلقہ بندی نہ ہو تو دھاندلی ہے‘

حلقہ بندیوں کی وجہ سے ووٹرز اور علاقائی حدود پر پڑنے والے اثرات کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں مخالف تو ہیں تاہم پیپلز پارٹی اپنے اعتراضات کے باوجود کافی مطمئن نظر آتی ہے۔

جماعت کے رہنما مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں اُنھیں شہر میں اکثریت ملے گی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ حلقہ بندیوں پر ان کی پارٹی کو بھی اعتراضات تھے اور پی پی پی نے ہر ڈسٹرکٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے تحفظات ریکارڈ کرائے تھے جن میں سے کچھ اعتراضات انھوں نے مانے اور کچھ نہیں مانے۔

‘ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ حلقہ بندی ان کی مرضی سے ہو۔ اگر ان کی مرضی سے نہ ہو تو یہ دھاندلی ہے اور ٹھیک نہیں ہےـ ایم کیو ایم نے پچھلے آٹھ دس انتخابات بڑے مختلف ماحول میں لڑے ہیں۔ تب الیکشن والے دن مادر پدر آزادی ہونے سے لے کر الیکشن کے نتائج تک ان کی مرضی کے ہوتے تھے۔ آج حالات مختلف ہیں، اسی لیے وہ آج سے ہی اپنے دلائل پکے کررہے ہیں کہ جب نتائج آئیں گے، اور ایم کیو ایم بری طرح سے کراچی میں ہارے گی، تو پھر وہ لوگوں کو جواز بتائیں گے کہ حلقہ بندیاں صحیح نہیں ہوئی تھیں۔’

فاروق ستار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے ایک کمزوری یہ دکھائی کہ انھوں نے عدالتوں کا رُخ نہیں کیا۔

‘جب ہمارے حلقوں کو مسترد کردیا گیا تب بہادرآباد اور پی آئی بی کا مسئلہ آ گیاـ ہمارے تنازعات سامنے آگئے۔ میں پارٹی بچانے میں لگ گیا کیونکہ پارٹی ہوگی تب ہی باقی معاملات بنیں گے۔ لیکن ہم نے الیکشن کمیشن کو لکھا ہے کہ آپ نے ہمارے اعتراضات نہ سن کر زیادتی کی ہے۔’

پاکستان

سعید غنی نے کہا کہ حلقہ بندیوں پر ان کی پارٹی کو بھی اعتراضات تھے

انھوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر مشرف دور میں 2002 کی حلقہ بندیاں ان کی مرضی سے ہوئی ہوتیں تو وہ چار نشستیں متحدہ مجلسِ عمل سے نہیں ہارتےـ

’اسٹیبلشمنٹ کمزور حکومت چاہتی ہے‘

ماہرین کے خیال میں سیاسی جماعتوں کا حلقہ بندیوں میں تبدیلی کے ذریعے دھاندلی کا الزام عوام اور ریاست میں پہلے سے موجود فرق کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

کالم نگار توصیف احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر سیاسی جماعتیں بار بار یہ بیانیہ دہرائیں گی کہ حلقہ بندیوں اور اس کے نتیجے میں ووٹر لسٹوں میں بےایمانی ہوئی ہے تو ان جماعتوں کے حامی اور ووٹر میں بےاعتمادی بڑھے گی۔’

پاکستان

توصیف احمد

انھوں نے کہا کہ ریاست کے ہر معاملے میں ہر آدمی کو ہر ادارے سے کوئی نہ کوئی شکایت ہے جو کہ اس وقت ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر چکی ہےـ

‘ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ ہےـ دھاندلی کے الزامات لگنے سےعام آدمی کا جمہوری نظام پر سے اعتماد مجروح ہو جاتا ہےـ اس اعتماد کا مجروح ہونا عسکری اسٹیبلشمنٹ کے حق میں جاتا ہےـ کیونکہ میرا یہ ماننا ہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ انتخابات میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جائے اور کمزور حکومتیں بنیں جن کو وہ انتخابات کے بعد بلیک میل کر سکیں۔’

توصیف احمد نے کہا کہ ‘سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام کے حامیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صاف و شفاف انتخابات ان کے اور جمہوری نظام کے فائدے میں ہیں خواہ وہ ہار ہی کیوں نہ جائیں۔’


الیکشن 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp