بینظیر بھٹو قتل: مطلوبہ حملہ آور کی ویڈیو منظر عام پر، الزام سے انکار


بینظیر

ویڈیو میں اکرام اللہ محسود نے خود پر لگائے جانے والے الزام کی تردید کی ہے

پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک شدت پسند اکرام اللہ نے حال ہی میں طالبان کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں خود پر لگائے گئے الزام کی تردید کی ہے۔ خیال کیا جاتا رہا کہ 2007 دسمبر میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونے والے حملے کے لیے اکرام اللہ متبادل خود کش حملہ آور تھے اور اگر پہلہ حملہ آور اپنے مشن میں ناکام ہوتا تو اکرام اللہ اس مشن پر جاتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور ملک کی دو دفعہ منتخب ہونے والی وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور ان کے ساتھ ساتھ 20 افراد بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

واقعے کے 11 سال بعد طالبان کے ایک نئے دھڑے کی جانب سے یہ ویڈیو جاری کی گئی جو کہ بی بی سی نے حاصل کی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو مشرقی افغانستان میں بنائی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں اکرام اللہ نے 2007 کے حملے کے بارے میں اپنا پہلا بیان دیا ہے اور اور متعدد بار اس بات کو دہرایا ہے کہ وہ اس کی تیاری میں کسی بھی لمحے ملوث نہیں تھے اور نہ ہی انھیں اس منصوبے کا کوئی علم تھا۔

واضح رہے کہ اکرام اللہ پاکستانی حکام کی جانب سے جاری کی گئی مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور عدالتی دستاویزات میں انھیں دوسرا خود کش حملہ آور قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی اور ملک کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اکرام اللہ کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رحمان ملک نے کہا کہ اکرام اللہ ‘مکمل طور پر جھوٹ بول رہا ہے’ اور کہا کہ اس حملے میں ملوث دوسرے ملزمان نے عدالت میں اس کا نام دوسرے خود کش حملہ آور کی حیثیت سے لیا تھا۔

پاکستان

راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو اپنی تقریر کے بعد ڈائس سے پلٹ رہی ہیں جس کے کچھ ہی دیر بعد ان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا

پاکستان میں شدت پسند گروہوں کے حوالے سے معلومات رکھنے والے ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ اکرام اللہ حال ہی میں کچھ عرصے قبل تک بینظیر بھٹو پر کیے جانے والے حملے پر فخر کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ‘تمام پاکستانی طالبان، حتی کے قبائلی علاقے میں رہنے والے بچوں کو بھی علم ہے کہ اکرام اللہ بینظیر بھٹو پر کیے جانے والے حملے میں ملوث تھا۔’

یاد رہے کہ گذشتہ سال اکرام اللہ پر افغانستان میں مخالف گروہ کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے پاکستان میں مقیم خاندان کو پاکستانی فوجی حکام سے دھمکیاں دی گئی تھیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ان واقعات کے نتیجے میں اکرام اللہ کو اس کے گروہ کے رہنماؤں نے یہ ویڈیو بنانے کا مشورہ دیا ہے جس میں اس نے بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

بینظیر بھٹو نے 1988 اور 1993 میں پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور کچھ عرصہ ملک سے باہر گزارنے کے بعد 2007 میں وہ الیکشن کی مہم چلانے کے لیے وطن واپس آئیں تھیں۔ اپنی موت سے دو ماہ قبل ان پر ایک اور قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں وہ تو بچ گئیں لیکن اس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ راولپنڈی میں دسمبر 2007 کے حملے کے بعد پانچ مبینہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن گذشتہ سال انھیں اس الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔

پاکستان

بینظیر بھٹو پر 18 اکتوبر 2007 کو کراچی میں ہونے والے حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے

اس وقت پاکستانی طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے بھی اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی تھی لیکن شبہ تھا کہ اس کی وجہ سخت عوامی رد عمل تھا۔ پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ انھوں نے بیت اللہ محسود کی فون کال سنی تھی جس میں ایک نامعلوم مذہبی رہنما نے بیت اللہ محسود کو بتایا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے ‘ان کے آدمی’ تھے جن میں 16 سالہ اکرام اللہ بھی شامل تھا۔

اس سے قبل، پاکستانی طالبان کے مرکزی گروہ کی جانب سے اس سال کے اوائل میں جاری کی گئی طالبان کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب میں بتایا گیا کہ ماضی میں متعدد بار تردید کے برعکس، بینظیر بھٹو پر حملہ طالبان نے ہی کیا تھا۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کہتے ہیں کہ اکرام اللہ ہی وہ واحد شخص ہے جس کے پاس بینظیر بھٹو پر کیے جانے والے حملے کی تفصیلات ہیں کیونکہ اس میں ملوث باق تمام افراد مارے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ اکرام اللہ تردید اس لیے سامنے آئی ہو کیونکہ شاید اسے ڈر ہو کہ کہیں اسے بھی پاکستان کے حوالے نہ کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے قتل میں پاکستانی طالبان ملوث ہیں لیکن تمام شواہد اور حقائق سامنے نہیں آئے ہیں اور انھیں چھپایا گیا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32471 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp