بنا ہے شاہ کا مصاحب


\"adnanتو صاحبو، ہوا یوں کہ ہوا ایسی چلی کہ امت مسلمہ کے دو عظیم  ستون اور برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران آپس میں جھگڑ پڑے۔ مسئلہ ورثے کی تقسیم کا تھا۔ عرب کہتے تھے کہ مشرق وسطی پر ان کا حق ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں سارا انہوں نے فتح کر کے اس کے کاغذات اپنے نام لگوا لیے تھے۔ ایرانی کہتے تھے کہ اس واقعے سے بارہ سو برس پہلے ایرانی شہنشاہ کوروش اعظم نے سارا علاقہ فتح کیا تھا اس لیے اس پر ان کا حق ہے۔ قدیمی کاغذات سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ اور کوروش اعظم کے متعلق مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ فرمان ہے کہ یہ وہی بادشاہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں (سکندر) ذوالقرنین کے نام سے آیا ہے۔

بہرحال وراثتی زمین کا یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ کچھ نہ پوچھیں۔ قریب تھا کہ ان دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تیل اور بارود کی پراکسی جنگ کے بعد ایٹمی جنگ چھڑ جائے، کہ کارکنان قدرت حرکت میں آئے۔ انہوں نے ہمارے ایک عظیم صحافی اور دانشور کے دل میں ایک خیال ڈالا کہ اس مسئلے کو سلجھایا جائے۔ ہمارے یہ محبوب صحافی اور اینکر اپنے ٹاک شو میں جنگ و جدل کے معاملات سے نمٹنے میں مشہور ہیں۔ سنا ہے کہ وطن عزیز میں بڑے آدمیوں کے درمیان کوئی بھی شکر رنجی ہو تو اسے بھی یہی دور کرتے ہیں۔

لیکن ہمارا گمان ہے کہ جس وقت معاملہ سلجھا رہے ہوں، اس وقت گمنام رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پاک انڈیا مذاکرات میں بیک چینل ڈپلومیسی اور مذاکرات کو خفیہ رکھنے کے عمل کے بانی بھی یہی ہیں اور اس بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ہی مسئلہ کشمیر اب حل ہونے کے قریب ہے۔ بہرحال، بات چل رہی تھی کہ سنا ہے کہ ہمارے بڑے آدمیوں کے درمیان بڑے بڑے معاملات سلجھانے کی۔ تو یہ معاملہ سلجھا دیتے ہیں۔ عام طور پر ہوتا ایسا ہے کہ ایک بڑے آدمی کو یہ فون کر کے اسے خیر و بد سمجھاتے ہیں۔ امت کا واسطہ دیتے ہیں۔ کافر یورپ کی مثالیں دیتے ہیں۔ تس پہ وہ کچھ نیم دلانہ انداز میں راضی ہو جاتا ہے تو اسے دوسرے بڑے آدمی کے گھر لے جاتے ہیں اور دونوں کو گلے ملا کر گلے شکوے دور کر دیتے ہیں۔ اور اس کار خیر کو صرف ثواب کی خاطر ہی کرتے ہیں۔ اس لیے ان دو حضرات کی زندگی میں اس صلح اور اس میں اپنے کردار کا کبھی بھی ذکر نہیں کرتے ہیں۔ ہمیشہ پس از مرگ ہی یہ انکشاف کرتے ہیں تاکہ کسی کا دل نہ دکھے۔

بہرحال، قومی معاملات سلجھاتے سلجھاتے اب وہ امت کے وسیع سٹیج پر بھی اپنا کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ ہم نے مقامی چانڈو خانے کے معتبر ذرائع سے افواہ سنی ہے کہ سعودی ایرانی پراکسی وار کے براہ راست جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ بھانپ کر ہمارے یہ ہیرو سیدھے وزیراعظم ہاؤس گئے، وہاں سے ہاتھ پکڑ کر میاں نواز شریف صاحب کو اپنی گاڑی میں بٹھایا، اور انہیں لے کر سیدھے پنڈی پہنچ گئے۔ وہاں جنرل راحیل شریف صاحب لنچ کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ کچھ کہے سنے بغیر ان کو بھی اپنی گاڑی میں بٹھایا، اور سیدھے چک لالہ لے گئے۔ وہاں پی آئی اے کا ایک جہاز ماسکو جانے کے لیے تیار تھا۔ اس کے پائلٹ کو امت کے مسائل کی اہمیت کے بارے میں سمجھایا تو اس نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے سارے مسافر اتار دیے، اور صحافی صاحب، میاں صاحب، اور جنرل صاحب کو جہاز میں بٹھا کر سیدھے جدے لے گیا۔

عظیم صحافی صاحب کی ویب سائٹ سے کچھ مزید اشارے ملے ہیں۔ وہاں لکھا ہے کہ \”ہوائی اڈے کے شاہی لاﺅنج میں وزیراعظم اور ان کے ارکان وفد کی تواضع عربی قہوے اور کھجوروں سے کی گئی۔ جنرل راحیل شریف ہوائی اڈے پر رکے بغیر دیوان الملک چلے گئے جہاں انہو ں نے سعودی ولی عہد دوم اور نائب وزیراعظم دوم شہزادہ محمد بن سلمان سے ماقات کی جو کم و بیش ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ وزیراعظم فضائی مستقر سے قصر ضیافہ چلے گئے جہاں ان کے قیام کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں مختصراً رکنے کے بعد وہ دیوان الملک پہنچے جہاں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ان کا خیرمقدم کیا۔ جنرل راحیل شریف یہاں پہلے سے موجود تھے\”۔

\"JavedCh\"

لکھا تو نہیں ہے لیکن ہمارا گمان یہی ہے کہ عظیم صحافی صاحب، جنرل صاحب کے ساتھ ہی دیوان الملک گئے ہوں گے۔ اب باقی تفصیلات تو ہمارے علم میں کچھ عرصے بعد آئیں گی جب مذاکرات کے ان کرداروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا، لیکن فوری طور پر عظیم صحافی صاحب کی ایک سیلفی منظر عام پر آئی ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ناقص علم کے مطابق یہ سنجیدہ ترین سمجھے جانے والے سعودی دربار میں لی جانے والی پہلی تاریخ ساز سیلفی ہے۔ ہمارے عظیم صحافی نے ایک بار پھر تاریخ رقم کر دی ہے۔

بظاہر اس تصویر میں عظیم صحافی صاحب شاہی شرطوں کے حفاظتی نرغے میں ہال سے لے جائے جا رہے ہیں۔ تصویر سے واضح ہے کہ موقع کی مناسبت سے انہوں نے شوخ جامنی رنگ کا کوٹ زیب تن کیا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ جامنی رنگ رومی اور بازنطینی شہنشاؤں کے لیے مخصوص تھا اور قصر شاہی کی دعوت میں اس سے بہتر کوئی اور انتخاب نہیں ہو سکتا ہے کہ سعودیوں کو پتہ تو چلے کہ یہاں پاکستان میں صحافت کا بادشاہ کون ہے۔

شاہ صاحب کے بالکل ساتھ کے صوفے پر جنرل صاحب کو بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ سعودی شاہ صاحب اور غالباً ولی عہد بہادر نہایت دلچسپی سے ہماری صحافت کے اس بے تاج بادشاہ کو ٹکٹکی باندھ کر تک رہے ہیں، جو کہ سیلفی اتارنے میں مشغول ہیں اور بظاہر شرطے انہیں گھیر کر حفاظت سے باہر لے جا رہے ہیں۔ شاہ صاحب اس سیلفی کے لیے بہت بڑی سمائل بھی دے رہے ہیں جو کہ اتنی دور سے بھی نظر آ رہی ہے۔ یا ممکن ہے کہ حفاظتی تحویل میں لئے جانے کے اس منظر پر خوش ہو رہے ہوں۔ اور میاں صاحب اور جنرل صاحب بالکل مخالف سمت ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے ہمارے بادشاہ کو جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔ انداز کچھ ایسا ہے جیسے ابھِی یہ کہہ ڈالیں گے کہ \’یہ کون شخص ہے اے شاہ سلمان؟ اسے یہاں کون لایا ہے؟ یہ الباکستانی ہے کیا؟\’۔

ایسے قدر ناشناس لوگوں کی زندگی میں ان کے بارے میں بندہ بھلا کیسے کچھ لکھ سکتا ہے؟ جو بندہ اس سارے سفارتی بریک تھرو کا ذمہ دار ہے، جو بندہ دو عظیم برادر مسلم ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرے کو ٹالنے کا سبب بنا ہے، اسے ہی مذاکرات سے باہر لے گئے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments