مطلق العنانیت، انصاف کی ترازو اور یوسفی صاحب


کچھ زمانے ایسے ہوتے ہیں جن میں ادب اور ادیبوں پر پیغمبری وقت پڑتا ہے۔ اکیسویں صدی کے یہ ابتدائی برس بھی ایسے ہی ہیں۔ موت کی آندھی ہے جو ہمارے بڑے بڑے تناور پیڑوں کو پتوں کی طرح اڑائے لیے جارہی ہے۔ اس صدی کا آغاز ہوا تو احمدندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، انتظارحسین اور ہمارے کئی بڑے رخصت ہوئے۔ یقین نہیں آتا کہ آن کی آن میں یہ سب لوگ چلے گئے۔ اور اب طنز و مزاح کے جس راج سنگھاسن پر مشتاق احمدیوسفی براجمان تھے، وہ خالی ہوا۔

یوسفی صاحب لفظوں کی دیپ مالا لیے آئے اور انھوں نے طنزومزاح کی گردن میں لفظوں کی یہ مالا ڈال دی۔ یہ 1961 کی بات ہے کہ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’چراغ تلے‘ بزم ادب میں رکھ دی۔ اس کتاب کی روشنی دور دور تک پھیلی اور زندگی کی تلخیوں سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے ان لفظوں سے اپنی زندگی کی ویرانی میں اجالا کیا۔ اس کے بعد سے لوگوں کو ان کی تحریروں کا انتظار رہنے لگا۔ وہ ’کاتا اور لے دوڑے‘ کے قائل نہ تھے، ایک ایک لفظ پر غور کرتے، اسے سجاتے اور سنوارتے، پھر پال لگے ہوئے آم کو سخن فہم لوگوں کی محفل میں پیش کردیتے۔

ان کے مداح ان کے لکھے ہوئے ہر لفظ کو سر آنکھوں پر رکھتے اور سوچتے کہ اس سینک سلائی مولابتی جیسے شخص کے اندر طنزومزاح کا وہ جھرنا کہاں سے پھوٹتا ہے جو انھیں شرابور اور سرشار کردیتا ہے۔ انھوں نے کم لکھا لیکن جب بھی ان کی تحریر سامنے آئی، لوگوں کی نگاہوں میں ان کا مقام بلند ہوتا گیا۔ خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم، شام شعریاراں۔ نوکیلے جملے، معنی خیز فقرے لکھنے میں ان کا ثانی نہ تھا۔ سادہ انداز میں چٹکی لے لینا ان کا فن تھا۔ کئی کردار تراشے جو اردو ادب میں لافانی رہیں گے۔ وہ پائے کے مزاح نگار تھے، کسی پر چوٹ کرتے تو وہ بلک جاتا، لیکن زبان سے اف کرنے کے قابل نہ رہتا۔ کیسی معصومیت سے ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’حقی صاحب سے ہم نے کیا کچھ نہیں سیکھا۔ طوائف الملوکی کا مطلب حقی صاحب نے سمجھایا ورنہ ہم تو کچھ اور سمجھ بیٹھے تھے۔

یادش بخیر راہ زن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے میں زنِ بازاری بتائے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے اس کے صحیح معنی معلوم ہوئے ہیں، سارا لطف ہی جاتا رہا۔ اب کہاں سے لاؤں وہ ناواقفیت کے مزے‘‘۔ ایسی ہی باتیں کرتے ہوئے یوسفی صاحب رخصت ہوئے اور شہر سخن کو ویران کرگئے۔ مرزا عظیم چغتائی، رشید احمد صدیقی، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان اور ابن انشا کے بعد ہمارے یہاں مزاح نگاری کا میدان خالی پڑا تھا، یوسفی صاحب اس میدان میں اترے تو اس میں جھنڈے گاڑ دیے۔ کیسے کیسے جملے لکھ گئے۔ دو جملے یاد آئے ’’جہاں تک پروفیسر کی عینک کام کرتی تھی، ہرا ہی ہرا نظر آتا تھا‘‘۔ اور یہ کہ ’’مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے‘‘۔ لیکن اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھیے گا کہ یوسفی صاحب سنجیدہ اور گمبھیر مسائل سے دامن بچالیتے تھے۔

’’آب گم‘‘ میں ملکی سیاست پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمارے ڈکٹیٹروں کا ذکر کس معصومیت سے کیا ہے ’’ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے‘‘۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا‘‘۔ ایسے کمال جملے لکھنے والا کراچی کی خاک میں سوگیا۔

پاکستانی سیاست پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔ یہ عمل دس گیارہ سال تک جاری رہے تو حساس آدمی کی کیفیت سیسموگراف کی سی ہوجاتی ہے، جس کا کام ہی زلزلوں کے جھٹکے ریکارڈ کرنا اور ہمہ وقت لرزتے رہنا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری سیاست کا قوام ہی آتش فشاں لاوے سے اٹھا ہے‘‘۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر 1990 میں جن الفاظ میں روشنی ڈالی تھی وہ آج بھی روشن چراغ کی طرح جھلملاتے ہیں:

’’لیڈر خود غرض، علما مصلحت بیں، عوام خوف زدہ اور راضی برضائے حکم، دانش ور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہوجائیں (رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے وابستہ ہیں تو:کامل اس فرقۂ تجّار سے نکلا نہ کوئی) تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غصب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے۔ ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے۔ باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدو ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب بلکہ عنقا شے کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

مطلب یہ کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابعدار اونٹ تلاش کرکے اسے دعوت دینے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرا بھیج سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس معنی میں کہ وہ خلوص دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تنِ تنہا کرسکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ وہ سچ مچ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جِگر میں سارے جہاں کا درد ہی نہیں، درماں بھی ہے۔ نیز اسی کی ذات واحد خلاصہ کائنات اور بِلاشرکتِ غیرے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ لہٰذا اس کا ہر فرمان بمنزلۂ صحیفۂ سماوی ہے۔

آتے ہیںغیب سے یہ فرامیں خیال میں‘‘

ہمارے صف شکن ڈکٹیٹروں کا نقشہ کس مہارت سے کھینچتے ہیں کہ

’’رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ کہ وہ بندگان خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں۔ اور وہ انھیں ظلمت سے نکال کر اپنے دورِ ناخدائی میں لانے اور بن مانس سے آدمی اور آدمی سے انسان بنانے پر مامور مِن اللہ ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنی شیشہ پلائی ہوئی دیوار سے خطاب کرتا رہتا ہے مگر قدِ آدم حروف میں اس پر لکھا ہوا نوشتہ اسے نظر نہیں آتا۔ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں۔ چنانچہ اوامر و نواہی کا انحصار اس کی جنبش ابرو پر ہوتا ہے۔ انصاف کی خودساختہ ترازو کے اونچے نیچے پلڑوں کو، اپنی تلوار کا پاسنگ، کبھی اس پلڑے اور کبھی اس پلڑے میںڈال کر برابر کردیتا ہے۔

ہرکہ آمد عدالتِ نو ساخت

ایسی سرکار دولت مدار کو مابدولت مدار کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ نقلِ کُفر، کُفرنہ باشد، مرزا عبدالودود بیگ (جو ابتدا میں ہر حکومت کی زور و شور سے حمایت اور آخر میں اتنی ہی شدومد سے مخالفت کرتے ہیں) ایک زمانے میں اپنے کان پکڑتے ہوئے یہاں تک کہتے تھے کہ اﷲ معاف کرے میں تو جب اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رجیم سے یہی regime مراد ہے! نعوذ باللہ۔ ثم نعوذباللہ‘‘۔

اسی طرح 90 کی دہائی میں انھیں رومن بادشاہ کیلے گولا کا چہیتا گھوڑا یاد آجاتا ہے جسے اس نے ایک نہایت اعلیٰ عہدے پر فائز کیا تھا۔ میری مجال نہیںکہ اس عہدے کا ’’اشارتاً‘‘ بھی ذکر کروں۔ یوسفی صاحب نے لکھا ہے کہ جب لوگوں کو گھوڑے کو یہ عہدہ تفویض کرنے پر اعتراض ہوا تو انھوں نے کہا کہ ’’مانا گھوڑا تھا اور انصاف نہیں کرسکتا تھا لیکن کم سے کم انسان کی طرح ناانصافی تو نہ کرتا۔‘‘

وہ کسی ایک لفظ کی تبدیلی سے مصرعوں کو کچھ سے کچھ کردینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ چند ایسے ہی مصرعے ملاخطہ ہوں:

آگ ’تکفیر‘ کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زیست مہمل ہے اسے اور بھی مہمل نہ بنا

چہ دلاور است دزدے کہ بہ کف سراغ دارد

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ شجر تو نہیں

جس کو ہو دین و دل عزیز میرے گلے میں آئے کیوں

آج کے حالات میں یوسفی صاحب کا ایک بے مثال جملہ یاد آتا ہے، انھوں نے لکھا کہ ’’کاش میرے باپ دادا بھی غدارِ وطن ہوتے تو آج ہم بھی سردارِ وطن ہوتے‘‘۔

اس جملے کو دہراتے ہوئے خواہش ہوتی ہے کہ یوسفی صاحب ابھی کچھ اور دن ہمارے درمیان موجود رہتے اور لفظوں کے موتی رولتے رہتے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).