نوناری صاحب سے سوال ہے


یہ ایک لمبی مسافت ہے۔ تھکا دینے والی، مستقل بے یقینی سے منسلک۔ آپ ستمبر میں کاغذ بھجواتے، ایک ابتدائی طبی معائنہ کیا جاتا، اکتوبر کی آخری تاریخوں میں امتحان ہوا کرتے، دسمبر کے وسط میں انٹرویو ہوتا پھر ایک تفصیلی طبی معائنہ ہوتا اور اگر آپ ان سب مراحل میں کامیاب ہوئے ہوتے تو اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں پی اے ایف کالج، سرگودھا پہنچ جاتے۔ وہ تمام آبادیاں، جو ابھی خواندگی کے نودریافت طلسم سے باہر واقع ہوتیں، جیسے یاسر بندیشہ کا کبیر والا، راجہ شعیب کا جسوال، عباس شاہ کا چارسدہ اور عمران جمالی کا ساٹھ میل، وہاں لوگ آپ کو حسب شعور کپتان، پائلٹ، افسر وغیرہ کہتے اور آپ انکسار میں ملفوف نرگسیت سے جواب دیتے ”نہیں جی۔ ابھی کدھر۔ “

بظاہر بہت سے لوگ یہی سمجھتے کہ سفر ختم ہو گیا، مگر سفر اب شروع ہوتا تھا۔

اپریل کے امتحانات، مئی کی وہ گرمیاں جن میں زمین سوندھی خوشبو چھوڑتی اور ٹائی لگانے سے اسستثنا مل جاتا، جون جولائی اگست کی چھٹیاں، ستمبر کے نئے نصاب، اکتوبر کے کھیلوں کے مقابلے، نومبر میں ملنے والے خاکی کمبل (جن میں فینائل ہلکی ہلکی باس چھوڑتی تھی)، دسمبر کی روپہلی دھوپیں جو کینو کی ترشی جیسی تیکھی تھیں، جنوری کی دلآویز دھندیں، فروری کے فلاور شو اور مارچ کے پربھات، جن میں دو وقت ملتے تھے۔ ان تمام موسمیاتی کیفیتوں میں صرف کیلنڈر سفر نہیں کرتے تھے، ہم بھی کئی منزلیں، مارتے تھے۔

آٹھویں ختم ہوتی تو پتہ چلتا کہ سلمان احمد صاحب کے اسلامی تصور اور ادریس پٹنی صاحب کے مذہب اور دین کے بنیادی فرق میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا طارق جمیل صاحب کی تمثیل اور غامدی صاحب کی تشریح کے مابین ہے۔ نویں کے بعد جب دسویں جماعت کو پہنچتے تو سمجھ لگتی کہ اسلامیات تو کٹے ہوئے پین، موٹے حاشیوں اور ضخیم حوالوں کا وہ دریا ہے، جسے عرفان پتل، مرزا سرفراز بیگ اور جودت مامون جیسے جنوبی پنجاب کے شناور ہی پار کر سکتے ہیں کہ انہیں مظفر گڑھ کی کسی مثالی درسگاہ نے اچھا لکھنا سکھایا ہے۔

گیارہویں سے پہلے، ایک کڑا میڈیکل بورڈ ہوتا جس میں فٹ قرار پانے والے اپنے آپ کو قریب قریب پائلٹ سمجھتے، منزل ابھی بھی بہت دور ہوتی۔ جب تک سیکنڈ ائیر کی بغاوتیں فرو ہوتیں، موٹے ناولوں اور خود کشی سے محبت کرنے طالب علم، شمیلہ نوناری صاحبہ کی وقار النساء مارکہ انگریزی کو وہ ہنٹر مان چکے ہوتے جس کے برتے وہ ہرکس و ناکس کے بل نکالنے پہ قادر تھیں۔

تب جون ایلیا نہیں پڑھے جاتے تھے مگر ناصر کاظمی کے سہارے بھی، یہ گتھی کسی سے حل نہیں ہوئی کہ پنڈی کی اس سیدانی کو سندھ کے نوناری کے لئے اتنے تھل بیلے پار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کامل اور عمیق ابھی چھوٹے تھے اور مغرب کی نماز کو آتے جاتے وہ شفیق بزرگ بھی دکھائی دے جاتے جو ان کے مختصر گھر کے مختصر تر کونے میں سبزیاں اگا اگا کر خوش ہوا کرتے تھے۔ کروشئے کی ٹوپی کے نیچے ہمہ وقت دعائیں دیتے ہوئے ہونٹ، ہمارا سندھ کی رواداری اور وسعت قلبی سے پہلا تعارف تھے۔

بارہویں کے بعد، آئی ایس ایس بی کی ایک منزل تھی جس میں جی ٹی او کی عینک کے پیچھے چھپی آنکھوں نے آدھوں کے راستے، ادھر اور آدھوں کے راستے، ادھر کر دیے۔
ان چار دنوں کے اختتام پہ جن کے ہاتھ میں تھمائے گئے کاغذ
RECOMMENDED
کا مژدہ سناتے تھے۔ ان کی زندگی اگلے چار سال ویک اینڈ، اکیڈمی، انڈر آفیسر، سولو کے درمیان گھومنا قرار پائی اور جن کے رقعے
NOT RECOMMENDED
کا پیغام لے کر آئے تھے، منیر نیازی انہیں، اک اور دریا کا سامنا سناتے تھے۔ دھلی دھلائی، استری شدہ قمیضیں پہن کر کالج ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے ان لڑکوں پہ اب وہ وقت آتے تھے جب انہیں گھر پہنچ کر رکشے والے کو دینے والے پیسے بھی بہن بھائیوں سے ادھار لینا پڑے۔ انہیں نئی درسگاہوں میں جانا تھا، اپنے لئے خود مضامین چننا تھے اور خود زندگی بسر کرنی تھی۔

جب ایک طرف کے افسر، سینے پہ فلائنگ بیج لگا کر رسالپور کے وسیع میدان سے نکلے اور دوسری طرف کے لوگ، ایک نوکری سے دوسری نوکری تک پکے ہوئے اور سفید مہران لے چکے تو طرفین کے ماں باپ نے بھی جان لیا کہ اب سفر پورا ہو گیا ہے۔
لیکن یہ مسافت لمبی ہوا کرتی ہے۔

ونگ کمانڈر عمر چوہدری، مجھے عمر بھائی کے نام سے یاد ہیں۔ ہماری پہلی ملاقات اس دن ہوئی جب میں پہلی بار کالج پہنچا اور آخری ملاقات، چار سال پہلے ری یونین میں ہوئی۔ وہ تین سال، بیرون ملک گزار کر آئے تھے۔ زندگی کی رفتار سے خوش تھے۔ اس دن مجھے کئی بار لگا کہ انہیں منزل مل چکی ہے، سفر اب اندیشوں سے نکل چکا ہے اور معمول کا معاملہ ہے۔ مسافت ختم ہو گئی ہے۔ آج صبح پتہ چلا کہ عمر بھائی ایک جہاز کے حادثے میں شہید ہو گئے ہیں۔

2012 میں معظم علی خاور کا جہاز زمین پہ گرا، گڑھا، مگر ہمارے دلوں میں پڑ گیا اور ایسا گہرا کہ ہزار خوشیوں سے بھی نہیں بھرتا۔ اسی سال، بلال بابری جہاز کی طرف جاتے وقت کہہ کر گیا تھا ”ابھی آتا ہوں“۔ شاد باغ میں اس کے لواحقین نے اس رات جب اس کا تابوت قبر میں اتارا تو وقت کے سب استعاروں سے ”ابھی“ کو بھی خارج کر دیا۔ 2016 میں رضوان ثاقب کا جہاز نہیں ملا، مگر اس کے گھر والے اب بھی کہیں نہ کہیں امید رکھتے ہیں کہ وہ زندہ ہے۔

ایک فضائی حادثہ تھا جو ہو چکا اور عمر چوہدری شہید ہو گئے۔ ایک ابتلائی دور ہے جو بیت رہا ہے اور جس میں ہم زندہ ہیں۔ کیسا جبر ہے کہ خوشی اور غمی پہ ہمارا اپنا اجارہ نہیں رہا۔ میں عمر چوہدری کے چلے جانے پہ ملال کروں تو کچھ دوست خوشخبری سناتے ہیں، کہ عمر چوہدری کو وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں اور دیگر احباب، شہید کے زندہ ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ عقیدے اور سرحد کی بحث سے قطع نظر، کیا ایک انسان کا ہم میں سے اچانک اٹھ جانا، دلوں کو رنجور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟

پی ای ایف کالج میں دو طرح کے درخت تھے، ایک، وہ ساکن شجر جو گھاس کے تختوں اور سڑکوں کے کنارے ایستادہ تھے اور دوسرے، وہ جو سانس لیتے، چلتے پھرتے، سایہ دیتے اور فیض بانٹتے تھے۔ ہر طالب علم اپنے انتخاب میں مکمل آزاد تھا کہ وہ کس جامد پیڑ کو اپنی بات بتائے اور کس چھتنارے استاد سے گیان حاصل کرے۔ لطیف نوناری بھی ایسے ہی ایک پیڑ کا نام ہے، جس کے سائے میں کئی چوپالیں لگی ہیں اور جس کے جواب، کئی سوالوں سے پہلے گرہ کھولتے تھے۔

منظر دھندلا رہا ہے، مگر قریب قریب یہی ترتیب ہو گی کہ بیس کمانڈر کو حادثے کی اطلاع دی گئی ہوگی، عمر بھائی کے اہلخانہ کو بتایا گیا ہو گا، بچوں کو کسی نے عین کلاس کے بیچ گھر جانے کی اجازت دی ہو گی، ایک سی ون تھرٹی میں تابوت، گھر والے اور قریبی دوست لاہور کے لئے رخصت ہوئے ہوں گے۔ خدا جانے رات سے پہلے یا اگلے دن صبح کے بعد، کسی وقت تدفین ہو گی۔ 1992 کے ستمبر سے شروع ہونے والی مسافت، شاید اب، 2018 کے جون میں ختم ہوتی ہے۔

نوناری صاحب سے سوال ہے کہ کیا یہ سارا سفر محض ایک محب وطن سپاہی اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا تھا جس میں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے، آپ جیسے استاد اور میرے جیسے دوست، فقط مہمان اداکاری کا فرضی کردار ادا کر رہے تھے؟

Jun 27, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).