سیاسی ہلچل اور سکون سے حقے کے کش لگاتا زرداری


پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی ملک کے مزدوروں، کسانوں، پڑھے لکھے درمیانے طبقے، وکلا، صحافیوں، ڈاکٹروں اور سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی اولین پسند ہوا کرتی تھی آج اس پارٹی کے ٹکٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لطائف بنائے جا رہے ہیں کہ فلاں علاقے میں نامعلوم افراد ایک شخص کے گھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پھینک کر فرار ہو گئے یا پی پی پی کے ٹکٹ کے لئے درخواست دینے والوں کے نام عمرہ کی قرعہ اندازی میں شامل کیے جائیں گے۔

پنجاب میں سیاسی گہما گہمی میں ساری سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کا ذکر ہوتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کسی شمار قطار میں بھی نہیں ہے۔ البتہ جب جب مسلم لیگ نون پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو میڈیا والے جس کا اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر کو ٹی وی پر لے آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اکثر مقامی رہنماؤں کا حال گاؤں کے اس غریب شخص کی طرح ہوتا ہے جہاں گاؤں میں سیلاب آیا اور لوگوں کے مال مویشی بہا کر لے گیا اور گاؤں کے مکانات زیر آب آ گئے۔

دیہات کے لوگ ایک قریبی ٹیلے پر چڑھ کر اپنے گاؤں کی بربادی کا منظر دیکھ رہے تھے اور بین کر رہے تھے۔ ٹیلے پر بیٹھا ایک شخص اطمینان سے حقے کے کش لگا رہا تھا۔ روتے ہوئے لوگوں نے اس شخص سے مطمئن ہو کر بیٹھنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ اس نے ساری عمر غربت میں گزار دی اور ہمیشہ بہت دکھ اٹھائے اور آج غربت کا مزہ پہلی بار آیا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیسے تو کہنے لگا کہ مال والوں کا مال غارت ہوتے دیکھ کر دل کا اطمینان ہو رہا ہے کہ چلو شکر ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا جو سیلاب بہا کر لے جاتا۔

آج پیپلز پارٹی سارے سیاسی منظر نامے میں میدان سے باہر بیٹھ کر تماشائی بنی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جب بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری کو منتقل ہوئی تو پارٹی کو جہاں قیادت کا مسئلہ درپیش ہوا وہیں پارٹی کی سمت کا مسئلہ بھی سامنے تھا۔ نئے قائد آصف علی زرداری کو یہ سمجھ آیا کہ اس ملک میں اقتدار ہمیشہ جی ایچ کیو کی اشیر باد سے ملتا ہے اور اس میں عوام کی رائے کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی۔ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر آصف علی زرداری کی یہ رائے کوئی اتنی بھی بے جا نہ تھی۔ مگر آصف علی زرداری عملی اور معروضی سیاست کے اس قدر قائل ہو گئے کہ انہوں نے پارٹی کی تنظیم کی طرف کوئی توجہ دی اور نہ کوئی پارٹی پالیسی تشکیل دی جو نئی نسل کو اپنی جانب کھینچ سکتا۔ بس زندہ ہے بھٹو کا نعرہ لگایا گیا جس سے آج کی نسل پوری طرح آگاہ بھی نہیں۔

وہ پارٹی جو چار بار اقتدار میں آئی اور جس نے دو وزرا اعظم کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور لاڑکانہ کا قبرستان آباد کیا اور جو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی اس کا یہ انجام کیوں ہوا اور کا ذمہ دار کون ہے۔ بہت سے محققین اس پر لکھ رہے ہیں اور مختلف زرایہ نگاہ سے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش بھی کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس پارٹی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کریں گے ٹیلے پر بیٹھ کر دوسری جماعتوں کی بربادی کو دیکھ کر مطمئن حقے کے کش لگاتا ہوا آصف علی زرداری پارٹی کو عوام میں مقبول نہیں بنا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).