الیکشن 2018: کراچی کی سیاست، ’سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ایک دولت مند شہر پر فوقیت حاصل کرنا‘


کراچی

پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی برسوں سے سیاسی جماعتوں کی آپسی چپقلش کی وجہ سے بنیادی سہولیات سے محروم رہا ہے۔

ان میں سب سے واضح محرومی شہر میں جگہ جگہ پڑے کچرے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔

کچرے کو ٹھکانے لگانے کا ناکارہ نظام، پانی کی کمی، خراب سڑکیں، ناجائز تجاویزات، اور دیگر مسائل کی بڑی وجہ اختیارات کی لڑائی اور اس کی وجہ سے تقریباً مفلوج ہوجانے والا بلدیاتی نظام ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

پی پی پی کا منشور، کتنا نیا، کتنا مشکل؟

کیا الطاف حسین اپنا اثر کھو چکے ہیں؟

’وہ 90 لاکھ لوگ کہاں ہیں جنھیں آپ نے گِنا نہیں ہے’

بھٹو خاندان کی تیسری نسل کا عملی سیاست میں قدم

کراچی کے مئیر وسیم اختر کو شکایت ہے کہ ان کو بلدیاتی نظام میں چیدہ چیدہ اختیارات دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ کچرے کے ڈھیر کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن اسے اٹھانے کا اختیار نہیں رکھتے۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سندھ کی تمام تر سیاسی جماعتیں ایک جاگیردارانہ سوچ کی پیروی کر رہی ہیں اور بنیادی طور پر بلدیاتی نظام کو نہیں مانتی۔ وہ تمام اختیارات جو میونسپل کونسل کے پاس ہونے چاہیے جیسے کہ واٹر بورڈ، سیوریج، ٹرانسپورٹ اور ویسٹ مینیجمنٹ وہ سب سندھ حکومت نے اسمبلی میں اپنی اکثریت ہونے کی بنا پر قانون میں ترمیم کر کے اور نوٹیفکیشن کے ذریعے اپنے نام کر لیے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ایک طرح سے آرٹیکل 140 A کی بھی تضحیک ہے جس کے تحت صوبے کے ایڈمن کے پاس اختیارات ہونے چاہیے۔ اس کے خلاف انھوں نے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس ہسپتالوں کو بہتر بنانے کا برائے نام اختیار تو موجود ہے لیکن اس کی لیے فنڈز نہیں ہیں۔

سعید غنی

ایم کیو ایم پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا سنہ2001 کا بلدیاتی نظام لاگو کرنا چاہتی ہے، جسے چاروں صوبوں نے مسترد کیا ہے

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر ’با اختیار‘ بلدیاتی نظام کے حامی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’لیکن مجھے تعجب ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے اعتراضات اسمبلی کے فلور پر متنازع قانون سازی میں ترمیم کی صورت میں نہیں اٹھائے۔‘

سعید غنی نے کہا کہ ’صوبائی بلدیاتی نظام میں 80 فیصد نمائندے پیپلز پارٹی کے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ حیدرآباد اور کراچی کے علاوہ صوبے کے باقی علاقوں میں ایم کیو ایم کی اکثریت نہیں ہے۔ پھر شکایت بھی ان کو ہے۔ کراچی شہر میں بھی ڈسٹرکٹ کونسل ایم کیو ایم کے پاس نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ چھ میں سے صرف تین ڈسٹرکٹ مونسپل کارپوریشن میں ایم کیو ایم کا حصہ ہے۔ آج بھی آدھا کراچی ان کے حصے میں نہیں آتا۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا سنہ2001 کا بلدیاتی نظام لاگو کرنا چاہتی ہے، جسے چاروں صوبوں نے مسترد کیا ہے۔

عارف حسن

سیاسی جماعتوں کا مسئلہ ایک دولت مند شہر پر فوقیت حاصل کرنا ہے

غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں ہی سیاسی جماعتیں کراچی سے الیکشن جیتی آئی ہیں لیکن پھر بھی شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے مل کر کوئی حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن کی رائے میں سیاسی جماعتوں کا مسئلہ صرف ایک دولت مند شہر پر فوقیت حاصل کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ’کراچی ایک دولت مند شہر ہے اور سندھ کا دارالحکومت ہے جس کی اکثریت سندھی نہیں بولتی۔ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ یہاں آمدن ہے۔ فارمل سیکٹر میں 75 فیصد ملازمتیں ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے ہر سیاسی جماعت اپنی اجارہ داری چاہے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ’ پی پی پی جو کہ سندھی بولنے والی عوام کی رہنمائی کرتی ہے، وہ اس شہر کو صرف مرکزیت پر مبنی سسٹم کے تحت کنٹرول کر سکتی ہے۔ اور اردو بولنے والی جماعتیں غیر مرکزی بنیاد پر ہی اس شہر کو کنٹرول کر سکتی ہیں۔‘

وسیم اختر

سندھ کی تمام تر سیاسی جماعتیں ایک جاگیردارانہ سوچ کی پیروی کر رہی ہیں

عارف حسن نے کہا کہ ’یہ سب معاملات حل ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ حل ہو گیا تو ووٹوں کا کیا ہو گا۔ اگر ووٹ ہوں گے تو اختیارات ملیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’فنڈز ہونے کے باوجود بھی انھیں کبھی بلدیاتی منصوبوں کے لیے مختص نہیں کیا جاتا بلکہ یہ بونس کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کی بحالی کے لیے کبھی فنڈز نہیں دیے جاتے، جس کی وجہ سے یہ نظام مفلوج ہے اور اس کا متبادل پرائیوٹ کمپنیاں ہیں جو اس نظام کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گی۔ کیونکہ بنیادی طور پر بلدیاتی نظام اب ختم ہو گیا ہے۔‘

‎ایک طرف تو کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی دنگل جاری ہے لیکن اس جھگڑے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا سے آنے والے انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ اس میدان میں اتریں اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کریں۔

انتخابات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp