عرفان خان کا عروج اور پھر انوکھی بیماری


عرفان علی خان اپنی ایم اے کی ڈگری کی پڑھائی کررہے تھے جب وہ نئی دہلی میں نیشنل سکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک اسکالر شپ حاصل کرتے ہیں۔ ٹانک راجستھان سے تعلق رکھنے والے عرفان اپنے نام میں ایک ہی لفظ استعمال کرتے تھے، وہ تھا عرفان۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ایک اور R کا اضافہ کیا ان کا کہنا ہے ان کو اضافی R کی آواز پسند ہے۔ کچھ ٹائم بعد انہوں نے اپنے نام کے ساتھ خان لگا دیا۔ شاید بالی ووڈ میں خانو ں کا راج تھا جس سے عرفان بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

جب وہ این ایس ڈی میں آخری سال میں تھے تو ان کو میرا نائر نے سلام بمبئی میں ایک چھوٹا رول دیا۔ آہستہ آہستہ انھوں نے اسکرین پر اپنی جگہ بنائی، انہوں نے بڑے دھیمے اور مودبانہ لہجے میں اسکرین پر بات کی، ان کی منفر اداکاری کی وجہ سے وہ بالی وڈ میں اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے بارے میں ڈینی بویل نے کہا slumdog millionaire میں ہمارا یقین ہے کہ پولیس والا واقعی یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ جمال معصوم ہے۔ Boyle ایک کھلاڑی کے ساتھ ان کا موازنہ کرتا ہے جو بالکل ایک ہی اقدام کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔ ہالی ووڈ میں ان کی جدوجہد بالی ووڈ کے دوسر ے اداکاروں کی طرح وقتی نہیں۔ Life of Pi میں ان کی اداکاری کمال کی ہے جس نے عرفان کو دنیا سے روشناس کرایا۔ بالی ووڈ میں شاہ رخ، عامر، سلمان خان جیسے اسٹارز کی موجودگی میں عرفان کا ہالی ووڈ میں منتخب ہونا ان کی شاندا ر اداکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہندی میڈم کا اداکار ایک غیر معمولی بیماری سے لڑ رہا ہیں۔ شاید عرفان کو تکلیفیں برداشت کرنے کا شوق تھا یا قسمت عرفان پر مہربان نہیں رہی جس کی وجہ سے عرفان کی بیماری کی تشخیص میں وقت لگا۔ عرفان کی بیماری بھی عرفان کی شخصیت کی طر ح منفرد ہے، خان کو انداز ہ نہیں ہوا کہ وہ ایک انوکھی بیماری میں پھنس جائے گا۔ جیسے کبھی کبھی ہم کو ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھنا پڑتا ہے اور ہم زندگی کے ایک نئے راستہ کو دیکھتے ہیں جس کے لئے ہم تیا ر نہیں ہوتے۔

عرفان کی شریک حیات ستاپہ سکندر کس درد سے گزر رہی ہوں گی یہ درد صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو اس تکلیف سے گزر ا ہو۔ ستاپہ کہتی ہیں میرا سب سے اچھا دوست اور میر ا ساتھی ایک ’ فائٹر ہے، وہ بہت زبردست اور خوبصورتی کے ساتھ ہر رکاوٹ سے لڑ رہا ہے۔ میں خد ا اور عرفان کی شکر گزار ہوں کہ مجھے بھی فائٹر بنا دیا، یہ آسان نہیں تھا اور نہ آسان ہے لیکن خد ا پر یقین، دوستوں اور عرفان کے شائقین نے مجھے اندھیرے میں ایک امید کی کرن دی ہے۔ مجھے لگتا ہے عرفان کی پاٹنر عرفان کو اس درد سے باہر لے آئے گی جس سے عرفان گزر رہا ہے، کہتے ہیں عورت جب اپنی کرنے پر آجائے تو کائنات کی ہر شے کو شکست دے دیتی ہے۔ پھر عرفان تو زندگی کا پاٹنر ہے اس کے لئے تو ہر جنگ لڑی بھی جا سکتی ہے اور جیتی بھی جاسکتی ہے۔

خان نے انڈیا سے باہر اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ عرفان لگ بھگ ہر فلمی ایوارڈ جیت چکا ہے۔ عرفان نے تیس سے زائد فلمو ں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اداکاری ایسی کہ اس نے کنگ خان، مسٹر پرفیکٹ، سلمان کے ہوتے ہوئے بالی وڈ میں اپنا ایک منفر د مقام بنایا۔ جب کبھی عرفان کی فلم مداری دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے طبیت بھوجل ہوجاتی ہے ایک ایسا با پ جس نے اپنے بیٹے کے لئے سسٹم کو ٹکر دیدیی۔ عرفان کا فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے جو میں اپنی زندگی میں بھی اپلائی کرتا ہوں۔ جب ہمیں کوئی بہت بڑا گول سر کرنا ہوتا تو ہمیں اپنے سارے راستے سارے ڈر سب کو بھلا کے وہ کرنا ہوتا ہے جو ہمیں کرنا چاہیے۔ مسٹر بچن اور عرفان کی فلم PIKU کے کیا کہنے۔ دونوں کو ساتھ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب کسی کو پردہ پر دیکھنے کی خواہش ہی نہیں رہی فلم میں دونوں کی نوک جھوک ایسی کے مزا آجائے۔ سوچتا ہوں کیا پھر دونوں کو ساتھ کبھی دیکھ پاؤں گا؟

ابھی عرفان کی زندگی بھی اس کہانی کی طر ح ہے جس میں بس سسپینس ہی سسپینس ہے۔ کیونکہ تھوڑا بہت تو عرفان بیماری کے بارے میں جانتا ہے لیکن اس کو فلم کے کلائے میکس کا نہیں پتہ یا وہ اپنے کریکٹر میں جینا چاہتا ہے جو وہ کسی فلم میں کرتا ہے کیوں کے وہ جانتا ہے فلم کے اختتام پر ڈائرکٹر نے پیک اپ کی آواز لگانی ہے جس سے اس کی تھکاوٹ اترنے کا احساس ہونا تھا اور وہ ایک نئے سفر پر روانہ ہو جائے گا۔ لیکن اپ ہسپتال کا کمرہ جہاں صرف اس کی وہ بیماری اور وہ خود یہ سوچتا رہتا ہے اور قدرت سے سوال کرتا ہے ا گر تو نے مجھے اپنا منفرد بندہ بنایا تھا کم از کم بیماری تو منفرد نہ دیتا۔

یہ سب آسان نہیں ہو گا عرفان کے لئے لیکن خدا کی طرف سے نظر آتی ہوئی امید، دوستوں اور عرفان کے پرستار نے مجھے صرف حوصلہ مند بنا دیا ہے۔ عرفان بھی اپنے فلمی ڈائیلاگ کی طرح ہوگیا ہے۔ کہتا ہے لکیریں بہت عجیب ہوتی ہے کھا ل پر کھنچ جائے تو خون نکال دیتی ہے اور زمین پر کھنچ جا ئے تو سرحدیں بنا دیتی ہے۔ شاید عرفان اپنے ہاتھ کی لکیریں نہیں دیکھ پایا جس نے اس کی زندگی میں ایک ایسی دیوار کھنچ دی ہے جس میں وہ ایک کمرہ میں بند ہو کر رہ گیا ہے اور انتظار کر رہا اس وقت کا جب وہ دوبارہ پردہ پر آئے گا اور اپنے منفرد انداز میں اپنا من پسند ڈائیلاگ بولے گا۔ محبت ہے جانے دیا اگر ضد ہوتی تو باہو میں ہوتی۔ کاش قدرت بھی عرفان کے اس ڈائیلاگ کی طر ح ہو جائے اور عرفان کو اس کے درد سے آزاد کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).