الیکشن دے کے بہلایا گیا ہوں


برطانوی سیاست داں اور لندن کے سابق میئر کین لونگ اسٹون کی کہی ہوئی ایک بات کافی مشہور ہوئی۔ کچھ یہ کہ اگر ووٹ دینے سے کوئی تبدیلی آسکتی تو اس پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ یہی بات کسی اور دانشور نے بھی کہی ہے۔

گویا انتخابات کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی انقلاب کے بجائے تسلسل کا نظام قائم رہے۔ یہاں، ظاہر ہے کہ حوالہ مغربی جمہوریت کا ہے۔ اس کی بنیاد ایک ایسے نظام پر قائم ہے کہ جو عام شہریوں کے حقوق اور ان کی خواہشات کا احترام کرتا ہے۔

جس مقولے کی میں نے بات کی ہے وہ تو محض ایک تبصرہ ہے یا شکایت کہ انتخابات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ امریکہ میں ٹرمپ جیسے شعبدہ باز کے صدر منتخب ہوجانے کے بعد شاید جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہو۔ لیکن چرچل سے منسوب اس مقولے کو ذہن میں رکھئے کہ جمہوریت بہت بری ہے لیکن کوئی اور نظام اس سے بہتر بھی نہیں ہے۔

اب ہم اپنی تاریخ کے سفر میں جس منزل پر ہیں اسے ہم جمہوریت کے حصول کے لئے انتخابات کا ایک فیصلہ کن معرکہ کہہ سکتے ہیں۔ ان انتخابات کی نوعیت ایک جنگ کی سی ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون کس طرف سے لڑ رہا ہے۔ یہاں مجھے میتھیو آرنلڈ کی ایک نظم کا آخری بند یاد آرہا ہے کہ جسے انگریزی ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا ترجمہ کم از کم میرے لئے تو بہت مشکل ہے۔

کیونکہ میں اپنی بات کہنے کے لئے سہاروں کی تلاش میں رہتا ہوں تو ایک ناکام کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اور یہ آخری تین مصرع ہیں ۔ ’’اور ہم یہاں، اندھیرے میں اس میدان میں بھٹک رہے ہیں کہ جہاں پیش قدمی اور مراجعت کے سمجھ میں نہ آنے والے نعروں کے شوروغل میں ناسمجھ قوتیں برسرپیکار ہیں۔ ‘‘ یعنی رات کی تاریکی میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا کہ صورت حال کیا ہے۔

اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے اور کئی اہم امیدوار مختلف نوعیتوں کی عدالتی کارروائی کا سامنا کررہے ہیں۔ صر ف ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اصل مقابلہ نواز شریف کی ’’ن‘‘ لیگ اور اس کی مخالف قوتوں کے درمیان ہے۔

آپ اگر معاملا ت کی گہرائی میں جانے سے گریزاں ہیں تو سمجھ لیجئے کہ یہ مقابلہ ’’ن‘‘ لیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ انتخابات میں دو مخالف نظریات یا دو بڑی سیاسی جماعتوں یا دو کرشمہ ساز شخصیتوں کے درمیان مقابلہ تو معمول کی بات ہے۔

کبھی کبھی ایسے کانٹے دار مقابلے سے حالات میں کوئی ہمہ گیر تبدیلی بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں جو امکانات پنہاں ہیں اس کا تفصیلی تجزیہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ہماری جمہوریت پارلیمانی ہے اس لئے ہر حلقے کے ووٹر اپنا ایک الگ نمائندہ منتخب کرتے ہیں گو ان کا مقصد کسی ایک پارٹی یا کسی مخصوص لیڈر کے حق میں اپنا ووٹ ڈالنا کیوں نہ ہو۔

اس سلسلے میں کئی حلقوں میں ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر کسی حلقے میں ایک ووٹر نے گزشتہ انتخابات میں نواز لیگ کو ووٹ دیا اور اس کے بعد وہ اس جماعت کی حکمرانی سے انتہائی مایوس ہوگیا اور عمران خان کی شکل میں اسے ایک مسیحا دکھائی دیا تو ظاہر ہے کہ وہ اس دفعہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دے گا۔

لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جب وہ اپنے تحریک انصاف کے امیدوار کو دیکھے تو اسے یہ معلوم ہوا کہ ارے، یہ تو وہی شخص ہے جسے اس نے پہلے ووٹ دیا تھا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امیدوار کے اچھے یا برے ہونے کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آپ تو پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں اور اگر اس پارٹی نے کسی کھمبے کو ٹکٹ دیا ہے تو آپ کو کیوں اعتراض ہو۔

اس صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جن خاندانوں کا کئی نسلوں سے غلبہ ہے جیتنے والی پارٹی ان ہی کے کسی فرد کے پاس ہونا ضروری ہے۔ وہ تمام جماعتیں جو تبدیلی ، سماجی انصاف اور برابری کی باتیں کرتی ہیں وہ بھی ان بااثر خاندانوں کا ہاتھ تھام کر سماجی تبدیلی کے امکانات کو خاک میں ملادینے کے عمل میں شریک ہیں۔

یہاں اس تضاد کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ایک طرف تو میڈیا اور سوشل میڈیا کے طفیل معاشرے میں ایک خاص نوعیت کی بیداری پیدا ہوئی ہے اور اس کا ایک اظہار ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کئی جگہ عام شہری امیدواروں کا گھیرائو کرتے دکھائے جارہے ہیں لیکن پارٹی ، خاندان ، دولت ، دبدبے اور دہشت کا زور ٹوٹا نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

کئی بدنام سیاست دانوں کی قیمت کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاست داں الیکشن ، الیکشن کھیل رہے ہیں اور انہیںنہیں معلوم کہ حکمرانی کی بساط پر کونسی چال کون چلے گا۔ اقبال کا وہ شعر پھر یاد آیا :

بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا اشارہ

یہ سوال کہ ایک سچی جمہوریت میں بھی انتخابات کیا کچھ تبدیل کرسکتے ہیں اپنی جگہ قائم ہے۔ لیکن یہ تشویش بھی راستے میں کھڑی ہے کہ کیا یہ انتخابات پر امن ماحول میں خیروخوبی کے ساتھ منعقد ہو پائیں گے اور کیا ان کے صاف اور شفاف ہونے پر اعتبار کیا جاسکے گا۔

جس بات سے میں نے اس کالم کا آغاز کیا تھا اس کی آپ یہ سمجھیں کہ ایک الٹی تصدیق یہاں ممکن ہے۔ وہ یہ کہ انتخابات کے نتائج سے کوئی تبدیلی آئے یا نہ آئے، انقلابی عمل سے بیدار ہونے والی وحشتیں اور اختلافات بہت کچھ تبدیل کرسکتے ہیں۔

عام انتخابات کا ہمارا تجربہ کچھ بہت خوش کن نہیں ہے۔ ہاں ، دو سیاسی حکومتوں کا اپنی مدت پوری کرنا بھی اپنی جگہ جمہوریت پر ہمارے اعتماد کی سند ہے۔ اور مسلسل تین عام انتخابات تو ہم اپنی تاریخ میں پہلی بار دیکھیں گے۔ تو کیا ہم وہ دیکھیں گے کہ جس کا وعدہ ہے؟

کیا تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے؟ دوسرے لفظوں میں ، کیا سچی جمہوریت اس ملک کے محکوموں کو مسند پر بٹھا پائےگی؟

یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ ایسا تو کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

نواز شریف اور ان کی جماعت کے دوسرے رہنمائوں کو جو شکایات ہیں وہ ہم سنتے رہے ہیں۔ اب بلا ول بھٹو زرداری نے بھی اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ملاوٹ والی سنسرشدہ جمہوریت قبول نہیں ہے۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دن اور آنے والے دن تشویش اور بے یقینی کی دھند میں لپٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور اس صورت حال کی پوری ذمہ داری سیاست اور جمہوریت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ بہرکیف، چلتے چلتے مجھے اس کالم کے عنوان کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔

یہ واضح ہے کہ میں نے الیکشن کو کھلونے کی جگہ رکھ دیا ہے اور یہ مصرع میرے حافظے کے مطابق مجید لاہوری کا ہے کہ جو پچاس یا زیادہ برسوں پہلے اس اخبار سے منسلک تھے۔ سیاسی طنز کا فن انہیں آتا تھا ان کی غزل کا یہ شعر مجھے یاد ہے:

چنا ہے قوم نے خود مجھ کو لیڈر
میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

اب آپ یہ شعر اپنے کسی لیڈر کی تصویر کے نیچے لکھنا چاہیں گے؟

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).