بری گھڑی کسی وقت بھی آسکتی ہے


ہم نے اپنی 70 سالہ تاریخ کے 32 سال آمریت اور بقیہ زیادہ حصہ ایمرجنسی میں گزارے ہیں۔ پچھلے 10 سال سے جمہوری عمل لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے لیکن اب ملک میں ایک غیر علانیہ ایمرجنسی کی صورتحال محسوس کی جاسکتی ہے۔

اس صورت حال میں مسز اندرا گاندھی کی لگائی ہوئی ایمرجنسی یاد آجاتی ہے، جس کی 43 ویں سالگرہ ابھی 26 جون کو گزری ہے۔ آج بہت سے لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ہندوستان میں جہاں 1885 سے انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی اور آزادی حاصل کرلینے کے بعد ملک میں جمہوریت کا نازک پودا لگایا اور اسے پروان چڑھایا، جہاں آج جمہوریت ایک تناور پیڑ ہے۔

اس کے باوجود مہاتماگاندھی، موتی لعل نہرو اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کا ہندوستانی جمہوریت کے نقشے سے صفایا ہوچکا ہے۔ اگر یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار خاطر ہو تو کم سے کم یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ اب بی جے پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کانگریس پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں۔ اور اقتدار کے ہما نے اس جماعت کے سر سے اڑ کر کہیں بہت دور بسیرا کیا ہے۔

ایسے میں لوگوں کو وہ ایمرجنسی یاد آتی ہے جو مسز اندرا گاندھی نے لگائی تھی اور جس کا دورانیہ صرف 21 مہینے تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ 21 مہینے تھے جو کانگریس کے اخلاقی اور سیاسی زوال کا سبب بنے۔ یہ درست ہے کہ اس کے بعد مسز گاندھی قتل ہوئیں، ہمدردی کی اونچی لہر پر راجیو گاندھی اقتدار میں آئے لیکن وہ بھی سری لنکا میں ہونے والی ہندوستانی مداخلت کا نوالہ بنے، مسز سونیا گاندھی نے کانگریس کو سہارا دیا، لیکن زوال کا سفر رک نہ سکا اور آج کانگریس اسی طرح ہندوستانی سیاست میں غیر اہم ہوچکی ہے جس کی مثال میں کچھ لوگ ہماری پیپلزپارٹی کا نام لیتے ہیں۔

وہ لوگ جو 1975 میں پیدا نہیں ہوئے تھے یا کم عمر تھے، ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ 26 جون 1975 میں جو ایمرجنسی لگی تھی، اس کے 25 برس پورے ہونے پر سیمینار اور جلسے ہوئے، اخباروں میں نامی گرامی لکھنے والوں کے مضامین چھپے اور حد تو یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر شدومد سے بحث مباحثہ ہوا، جو براہ راست دکھایا گیا اور کیبل نیٹ ورک کی جوتیوں کے صدقے ہم پاکستانیوں نے بھی دیکھا۔

زی ٹیلی وژن سے 25 جون کی رات کو اس بارے میں جو گفتگو نشر ہوئی اس میں مسز گاندھی کے اس وقت کے سیکریٹری مسٹر آر کے دھون، غلام نبی آزاد اور شریمتی سونی نے حصہ لیا۔ یہ گفتگو جس قدر تند اور تلخ تھی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنھوں نے اسے دیکھا اور سنا۔ اسی طرح سابق ہندوستانی وزیراعظم آئی کے گجرال نے ایمرجنسی کے حوالے سے جو باتیں کیں وہ ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا کی آزادئ اظہار کی غماز تھیں۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ ہندوستانی سیاستدان، دانشور اور صحافی 25 برس گزر جانے کے بعد بھی ان 21 مہینوں کو فراموش نہیں کرسکے ہیں، جنھوں نے ہندوستانی جمہوری روایات کو شدید نقصان پہنچایا۔

25 جون 1975 کو مسز اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا جو اقدام کیا، اس کے بارے میں ایک معروف اور معتبر دانشور اشیش نندی نے 1980 میں لکھا کہ طاقت اور مطلق العنانیت میں اپنا تحفظ تلاش کرنے کی خواہش نے 1975 میں مسز گاندھی کو مجبور کیا کہ وہ جمہوریت کی دعویدار ہونے کے باوجود ایک ایسا انتہاپسندانہ اور غیر جمہوری اقدام کریں۔ مسز گاندھی کی طرف سے اس انتہائی اقدام کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب اپنی بعض غلط پالیسیوں کے سبب وہ عوام میں نامقبول ہونے لگیں تو ہندوستان کے بزرگ سیاستدان اور جدوجہد آزادی کے نہایت محترم رہنما جے پرکاش نارائن نے ’’اندرا ہٹاؤ‘‘ تحریک کا آغاز کیا۔

اس تحریک کو ملک بھر میں مقبولیت حاصل ہوئی تو پہلے مرحلے میں مسز گاندھی نے جے پرکاش نارائن جی پر یہ الزام لگایا کہ وہ سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں اور اسی کے اشارے پر یہ تحریک چلارہے ہیں، یہ حربہ کارگر نہیں ہوا تو ان کا تعلق جن سنگھ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی لیکن ہندوستانی عوام اس الزام سے بھی متاثر نہیں ہوئے۔ ان ہی دنوں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگ موہن سنہا نے ایک مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ یہ مقدمہ اس سلسلے میں دائر کیا گیا تھا کہ 1971 کے انتخابات میں مسزگاندھی نے رائے بریلی کی نشست انتظامیہ کی دھونس اور دھاندلی کے نتیجے میں جیتی تھی۔

یہ فیصلہ مسز گاندھی اور ان کے بیٹے اور دست راست سنجے گاندھی پر بجلی بن کر گرا۔ ان کے سامنے ایک راستہ مستعفی ہوکر انتخابات کرانے کا تھا جس کے لیے وہ تیار نہ تھیں، چنانچہ انھوں نے اپنی کابینہ سے مشورہ کیے بغیر، اپنے بیٹے اور بعض قریبی مشیروں کی رائے پر عمل کرتے ہوئے یہ فیصلہ آنے کے صرف سترہ دن بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی۔

ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے انھوں نے تیسری دنیا کے آمریت پسند حکمرانوں کا لب و لہجہ اختیار کیا اور قوم سے اپنے خطاب میں اس انتہائی اقدام کی ذمے داری ’’اندرونی اور بیرونی خطرات اور ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں‘‘ پر ڈالی۔ اس انتہائی اقدام کے بعد آئین اور پارلیمنٹ کے بجائے وہ خود ’’اقتدار کا سرچشمہ‘‘ ہوگئیں، انتظامیہ، پولیس اور فوج ان کے زیرنگیں ہوگئی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کی پارلیمنٹ، اخبارات، عدلیہ غرض سب ہی مہر بہ لب کردیے گئے۔

وہ اکیس ماہ ہندوستان کی اکثریت اور اقلیت، بہ طور خاص مسلمان اقلیت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ 28 برس سے ایک جمہوری ملک میں رہتے آئے تھے، ان کے لیے آزادی سے لکھنا، بولنا، حکومتوں پر تنقید کرنا ایک روزمرہ تھا، چنانچہ ان کے لیے یہ ناقابل تصور تھا کہ وہ ایک مطلق العنان حکمران اور اس کے بستہ برداروں کے سامنے دست بستہ کھڑے رہیں۔

ان اکیس مہینوں میں ہندوستانی رہنماؤں، سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور طلبا نے ایمرجنسی کے خلاف تقریریں کیں، مضامین لکھے، مہم چلائی، جیل کاٹی، کئی طالب علم رہنما جان سے گئے، کئی کا آج تک پتہ نہ چل سکا کہ انھیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، لیکن آخرکار یہی وہ عوامی مزاحمت تھی جس نے صرف اکیس مہینوں میں مسز گاندھی کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ ملک بھر میں نئے انتخابات کا اعلان کریں۔

ایمرجنسی کے دنوں میں جیل کاٹنے اور “The Judgment” نامی کتاب لکھنے والے ہندوستان کے بزرگ کالم نویس اور تجزیہ نگار کلدیپ نائر جو ہمارے اخبار میں بھی طویل عرصے سے لکھ رہے ہیں، انھوں نے لکھا کہ 1977 میں کانگریس اور مسز گاندھی کی بدترین شکست کے فوراً بعد جب میں نے سنجے گاندھی سے سوال کیا کہ آخر انھیں یہ یقین کیسے تھا کہ مطلق العنان طرز حکومت اختیار کرکے مسز گاندھی بچ نکلیں گی۔ سنجے گاندھی نے جواب دیا کہ انتخابات کی کوئی ضرورت نہ تھی، مسز گاندھی دلّی میں بیٹھ کر ایمرجنسی کے سہارے سارے ملک پر حکومت کرسکتی تھیں۔

ان فاشسٹ خیالات کا اظہار سنجے گاندھی نے 1977 میں کانگریس کی بدترین شکست کے فوراً بعد کیا تھا۔ ان ’’خیالات‘‘ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریہ اس وقت کتنے بھیانک خطرات سے دوچار تھی۔ اس وقت اگر ہندوستان کے رہنماؤں، سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں، وکیلوں اور دیگر پیشہ ور تنظیموں نے اپنے جمہوری حقوق کے لیے جنگ نہ لڑی ہوتی، اگر انھوں نے گرفتاریاں، سزائیں، جسمانی تشدد اور نفسیاتی دباؤ نہ برداشت کیا ہوتا تو ہندوستان سے جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہوتا۔

26 جون 2018 کو ہندوستان میں ایمرجنسی کی 43 ویں سالگرہ منائی گئی اور اس موضوع پر سیمینار ہوئے، کتابیں سامنے آئیں۔ اندرا گاندھی کے فاشسٹ رویوں کے بارے میں اندرا گاندھی کی پھوپھی زاد بہن، مسز وجے لکشمی پنڈت کی بیٹی نین تارا سہگل نے ایک کتاب 1982 میں لکھی تھی جس کا ایک ایڈیشن 2014 میں بھی شائع ہوا۔

نین تارا آکسفورڈ لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے لیے کراچی آئیں تو ان سے ملاقات ہوئی۔ دھان پان سی نین تارا دھیمی آواز میں کیسی سچی اور کھری باتیں کرتی ہیں۔ وہ آج بھی ہندوستان میں مزاحمت کی ایک بلند آواز ہیں۔ 26 جون 2018 کو ہندوستانی دانشور، ادیب اور کالم نگار جاوید نقوی نے اپنے پاکستانی کالم میں یہ سوال اٹھایا کہ ایمرجنسی اگر جمہوریت کے لیے اتنی ہی بری تھی تو اب تک وہ قانون کی کتابوں میں کیوں موجود ہے؟

بری گھڑی کسی وقت بھی آسکتی ہے اور سیاسی کارکنوں، دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں، ٹی وی چینلوں سے وابستہ سیاسی تجزیہ کاروں اور ٹریڈ یونین رہنماؤں کو ہمہ وقت جمہوریت کی راہ میں آنے والی کٹھنائیوں اور ایمرجنسی جیسی صورتحال کو جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

بشکریہ ایکسپریس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).