پاکستان میں معیاری ڈراموں کا دوبارہ احیاء


مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سن 2000ءکے بعد سے اب تک سوائے دو ڈراموں کے کوئی اور ڈرامہ دیکھا ہو، ان دو ڈراموں کا ذکر آگے چل کروں گے، پہلے ماضی کے ڈراموں پر بات کرتے ہیں۔ مجھے 80ء اور 90ء کے دہائی کے پی ٹی وی کے ڈرامے بیحد پسند تھے۔ جب ہوش سنبھالا تو بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر پہلا ڈرامہ جانگلوس دیکھا۔ شوکت صدیقی کے بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989ء میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ اسی طرح اندھیرا اجالا، دھواں، آنچ، راہیں، دھوپ کنارے، الفا براوو چارلی، سسی پنوں، الف نون، گیسٹ ہاوس، آغوش، عینک والا جن اور ڈرامہ انگار وادی شہرت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے پورے گاؤں میں صرف ہمارے ہی گھر میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوا کرتا تھا جو ہم بیٹری پر چلایا کرتے تھے اور پورا گاؤں جمع ہوکر ڈرامہ دیکھا کرتا تھا، یہ اُن دنوں (1989ء) کی بات ہے جب گاؤں میں بجلی نہیں پہنچی تھی اس لیے بیٹری کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ پھر ہوا یوں کہ پاکستانی ڈراموں میں وہ بات نہ رہی، مقامی اور علاقائی کہانیوں کو چھوڑ کر غیروں کی کہانیوں اور کلچر کو امپورٹ کیا جانا لگا۔ انڈین ڈرامے اور موویز عام ہونا شروع ہوگئیں۔ پاکستانی ڈراموں میں سنجدگی کا عنصر کم ہونے لگا اور ڈرامے اپنی کوائلٹی میں گراوٹ کا شکار ہوگئے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی ڈرامے دنیا بھر میں مقبول ہوا کرتے تھے۔ حتیٰ بھارت میں بھی پاکستانی ڈراموں کا طوطی بولتا تھا۔

ہاں تو بات ہورہی تھی کہ سن 2000ء سے ابتک صرف دو ڈرامے دیکھ پایا ہوں۔ پہلا ڈرامہ ’ذرا یاد کر، جو یوٹیوب پر دیکھا ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی ماہ نور، ہادی، وقار اور عظمیٰ کے گرد گھومتی ہے۔ ماہ نوراور ہادی نکاح کے بندھن میں بندھ چکے ہوتے ہیں۔ ہادی ماہ نور سے بےانتہا محبت کرتا ہے مگر جائز باتوں میں روک ٹوک بھی کرتا ہے لیکن وہ بھی نہایت محبت کے ساتھ، ماہ نور کو ہادی کی محبت اور اس کی روک ٹوک سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔

عظمٰی ہادی کے مالک مکان کی بیٹی ہے اور ہادی سے محبت کرتی ہے مگر ہادی نے کبھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اسی دوران وقار نامی ایک سحر انگیز شخصیت کا مالک وقار ماہ نور کے پڑوس میں آتا ہے اور ماہ نور سے راہ و رسم بڑھا لیتا ہے۔ ’ذرا یاد کر‘ کی کہانی اس بات کا احاطہ کرتی ہے کہ کس طرح ایک غلط فیصلے سے پورے خاندان کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور جذبات میں کیے گئے فیصلوں سے ملنے والے زخم پوری زندگی گزر جانے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔ خلیل الرحمان قمر کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل کو آمنہ نواز خان نے ڈائریکٹ کیا۔ بنیادی طور پر کسی دوست نے اس ڈرامے کا پانچ منٹ کا کلپ واٹس ایپ کیا تھا جس کے بعد مجھے یہ پورا ڈرامہ دیکھنا پڑ گیا۔

اس کے بعد دوسرا ڈرامہ سیریل جو آج کچھ دن پہلے یوٹیوب پر دیکھا ہے وہ ہے ’سنو چندا‘ یہ ارینج میرج پر مبنی کہانی ہے جو محترمہ صائمہ اکرم چوہدری نے لکھی ہے۔ بہت ہی کمال اسٹوری ہے، مذکورہ دونوں ڈرامے ہم ٹی وی نیٹ ورک کے تیار کردہ ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پاکستان میں اچھے اور بہترین کوائلٹی کے ڈراموں کا دوبارہ سے احیاء ہوگیا ہے جو ایک اچھا شگون ہے۔ میں حیران ہوا کہ ڈرامہ ’سنو چندا‘ کی فقط آخری قسط 15 جون کو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوئی اور تادم تحریر 36 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں اور یوٹیوب کی ٹرینڈنگ میں ٹاپ پر آیا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ معیاری چیز بنائی جائے تو دیکھی بھی جاتی ہے اور اسے پزیرائی بھی ملتی ہے۔ پاکستانی ڈراموں کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان میں اچھے لکھاریوں کی کوئی کمی نہیں۔ اپنی ثقافت اور اپنے ہر گھر کی کہانی کو موضوع بنایا جائے تو یقیناً پاکستان اچھے ڈرامے بنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).