ایجنسیوں نے ہمیں تو نہیں مارا !


ایجنسیاں، نامعلوم افراد، خفیہ ہاتھ، حساس ادارے، ماسٹر مائنڈ غرض کیا کیا نام دیے ہوئے ہیں ہم نے اپنی کوتاہیوں، چالاکیوں اور چالبازیوں کو۔ سنہ دو ہزار دس کا ذکر ہے جب میں اپنی پچاس منٹ ( جیو کا ایک ٹاک شو جس کے میزبان عبدالرءوف صاحب تھے۔ ہمارے استاد اور باس ہیں) کی ٹیم کے ساتھ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے گھر خانقاہ شریف گیا اور مقصد جنوبی پنجاب میں ممکنہ طالبانائزیشن پر ایک ڈاکیومنٹری بنانا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے توجہ دلائی کہ خانقاہ شریف اور بہاولپور میں بڑے بڑے مدرسے بن گئے ہیں اور گھڑسواری سے لیکر تلوار بازی تک ہر قسم کی جنگی مشقوں کی تربیت دی جا رہی ہے، انہوں نے چند تصویریں دکھائیں جن میں وہ ایک ٹرک کی چھت پر چھپ کر مدرسے کی تصویریں لے رہی تھیں۔ گھر کی تزئین و آ رائش اور اپنے جمالیاتی شعور سے نہیں لگتا کہ ڈاکٹر صاحبہ اتنی مہم جو ہونگی لیکن واقعی ہیں۔ انہوں نے ہمیں دور دراز ایک گاؤں میں بھیجا جہاں چند لڑکے کسی مدرسے میں پڑھنے گئے اور واپس انکی میتیں ہی آ ئیں یا چند نا معلوم افراد جو ان کے نام کی تختیاں گاڑ گئے۔ پتہ چلا وہ جہاد میں کہیں کام آ گئے تھے۔ خیر وہاں سے ہم بہاولپور آ گئے اور ایک مدرسہ کی فلم بنانے لگے۔ کیمرہ مین کیونکہ اچھے منظر کا لالچی ہوتا ہے، سو اس نے گاڑی کا پردہ پردہ ذرا زیادہ کھسکایا ( ہم بھی چھپ کر فلم بنا رہے تھے) اور فلم بنانے لگا۔ اتنے میں گاڑی کے ارد گرد داڑھی والے کلا شنکوف بردار نوجوانوں کا مجمع لگ گیا۔ تھوڑی سی دھکم پیل اور کیمرہ مین عرفان اللّٰہ کے ھاتھ پر ضربیں لگانے کے بعد کیمرہ چھین کر ہمیں بھاگنے کا موقع دیا گیا اور ہم بھاگ نکلے۔ کیمرہ اور فلم کے بغیر بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے نمائندہ عباسی صاحب کے گھر پہنچے اور سارا قصہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھائی وہ مولانا مسعود اظہر کا مدرسہ ہے وہاں یوں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب تو پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ عباسی صاحب سے وعدہ کیا کہ آ ج تھوڑا بہت کام کر کے واپس لاہور چلے جائیں گے لیکن کیمرہ کا تو کچھ کریں۔ عباسی صاحب گھر سے نکل گئے اور صبح دس بجے کے نکلے شام تین بجے واپس آئے۔ ہمیں ساتھ لیا اور نور محل پہنچے جو کہ محکمہ زراعت کا دفتر ہے۔ وہاں ایک کرنل صاحب نے ہمیں سٹریٹیجک اثاثوں، ہمارے بھولپن، لفافہ پسند صحافیوں، دشمن کے مذموم ارادوں اور ان کی اپنی قربانیوں پر پورے پانچ گھنٹے لیکچر دیا۔ اس دوران شامی کباب، بسکٹ اور نمکو سے تواضع بھی کرتے رہے۔ پھر ہمیں فلم نکال کر کیمرہ واپس کیا اور سیدھا لاہور جانے کا مشورہ دیا۔ ہم خاموشی سے واپس آ گئے۔ مار پیٹ، زدوکوب ہونے اور تھپڑ مکے کھانے کی نوبت آ نے ہی نہیں دینی چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم تھوڑی بہت فلم بنا لائے تھے جو چلائی بھی گئی۔

اسی طرح سربجیت سنگھ کے والدین اور بہن پاکستان آئے اور مجھے واہگہ بارڈر پر ان سے ملنے بھیجا گیا۔ ہر بار جب میں ان سے بات کرنے ہی والا ہوتا تھا تو کوئی شخص مجھے آ کر کہتا کہ پہلے فلا ں جگہ سے اجازت لے لیں۔ میں اجازت لیتا لیکن ہر بار کوئی نیا آ دمی مجھے کسی نئے بھنبھل بھوسے میں ڈال دیتا حتی کہ ایک عجیب الخلقت شخص آیا اور میری چار گھنٹے کی محنت شاقہ ضایع کر کے انہیں بارڈر پار کروا آیا۔ میں نے بہت گالم گلوچ کی لیکن مجھے سمجھنا چاہیے تھا کہ دشمن کے امی ابو بھی دشمن ہی ہوتے ہیں چاہے جتنی بھی ہمدردی اکٹھی کرنے کی کوشش کریں۔ کلبھوشں یادیو کی بیوی اور امی آئیں تو ایک دوست نے کہا، “آ دیکھیں جاسوس کی بیوی کیسی ہوتی ہے” تو میں نے صاف انکار کر دیا۔ دشمن کی بیوی کو بھی نہ دیکھو مبادا آ پ کو اس کی جوانی پر ترس آ جائے”۔ پہلے ہی ہندوستانی فوجیوں کی بیویاں بےچاری زیر عتاب رہتی ہیں۔ اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ یہ ہے کہ جو کام ہماری یا قوم کی بہتری میں نہیں ہوگا وہ ہمیں نہیں کرنے دیا جائے گا اور اگر ہم ضد کریں گے تو حجامت سے خجالت تک کچھ بھی ہو سکتا ہے لہذا “ماڑی سی تے لڑی کیوں سی” کی بجائے ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔

پجھلے دنوں چاند رات پر میں استور میں راما پی ٹی ڈی سی میں ٹھہرا ہوا تھا تو میں نے پوچھا کہ یہاں جیو نیوز کیوں نہیں آ تا۔ جواب ملا انہوں نے بند کروایا ہے۔ استفسار پر پتہ چلا انہوں سے مراد ایجنسیاں ہیں۔ میں نے کہا بھائی کیبل کا بل دو گے تو جیو آئے گا نا۔ انہوں نے کہا جی باقی چینل بھی تو آ تے ہیں۔ میں نے کہا یار مار کھانے والی باتیں کرتے ہو آ پ لوگ۔ وال سڑہٹ جنرل کو جیو والوں نے چینل کی بندش پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی ہے اور آ پ بے دھڑک ایجنسیاں ایجنسیاں کرتے پھر رہے ہو۔ خیر ان کے مینیجر نے جھوٹ بول کر جان بچائی کہ جیو دیکھنے سے اس کی آ نکھوں میں پانی آ جاتا ہے اس لیے بند کروایا ہوا ہے۔

بے چاری ایجنسیوں پر تو مختاری کی تہمت ہے صاحب ! اب ایک بے باک صحافی خاتون سہیلی کے ساتھ کھٹے گول گپے کھاتے چار پانچ گھنٹے لیٹ ہو جائے تو نام ایجنسیوں کا۔ چند فیس بک فنڈوز گھر سے اداکار بننے نکلیں اور زمانے کی مار کھا کر گنگ ہو جائیں تو طرح طرح کے الزامات ایجنسیوں پر۔ راتوں رات ایک شخص، جسے گھر والے اناج کا دشمن سمجھیں، باخبر صحافی بن جائے تو نام ایجنسیوں کا۔ کسی صحافی کی پسلیوں میں دوست مذاق مذاق میں مکا مار کے جان سے مار دیں اور نہر میں پھینک دیں تو الزام ایجنسیوں پر۔ میمو گیٹ فیم اعجاز منصور امارات میں بیٹھا اسا مہ بن لادن کا انتظار کرتا رہے اور اسامہ دوستوں کے ساتھ مینگو پارٹی کرتا رہے افغانستان میں تو کام ایجنسیوں کا! کراچی میں فلسفہ کا پروفیسر زیادہ سوچنے کی وجہ سے مر جائے تو قصور وار بے چاری ایجنسیاں۔ نواز شریف چونتیس لاکھ لے کر قیمے والے پراٹھے پھڑکا دے تو مورد الزام ایجنسیاں! خان صاحب بیس ہزار بندے سڑکوں پر لا کر کسی کا پیشاب نکالنے کی بات کریں اور وڈیو لیک ہو جائے تو ذمہ دار ایجنسیاں! جیپ کے نشان پر اور اپنے ضمیر کی آ واز پر یکلخت اندر سے آواز آ جائے اور بندہ جیپ کے ٹائروں کے ساتھ بندھنے پر تیار ہو جائے تو بھی سزاوار ایجنسیاں! کسی منھ پھٹ اخبار کی کاپیاں پھٹ جائیں تو بھی خطا وار ایجنسیاں! محبت میں ناکامی پر لوگ گھروں سے کئی سال کے لیے غائب ہو جائیں تو بھی قصور بے چاری ایجنسیوں کا! حامد میر کو بتا بھی دیا جائے کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے شوہر دنیا میں نہیں رہنے دیے گئے پھر بھی کٹہرے میں بے چاری ایجنسیاں!

کیا کیا برداشت نہیں کیا ان بے چاری ایجنسیوں نے۔ لڑکیوں نے جسموں پر انکے نام کے ٹیٹو بنوا کر سارے محلے میں پانی پانی کر دیا لیکن مجال ہے کسی نے بال بھی بھلا کیا ہو اس خاتون کا۔ سابق ڈی جی نے را چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھ ماری لیکن آ فریں ہے کسی نے اف تک نہیں کی۔ سابق چیف نے بھارتی ہم عصر سے جپھیاں ڈالیں اور اچانک تصویریں منظر عام پر آ گئیں لیکن کہیں ٹیس کا شائبہ بھی ملا ہو۔ غریب کی جورو کی طرح مار کھاتی اور صحرا میں کسی ظلم سہتے حبشی کی طرح بے زبان چلی جاتی ایجنسیوں کا پالنہار بھی وہی خدا ہے جو اوپر بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).