چلو سجنو ”سنجو“ دیکھنے چلو


بچپن سے ہی مجھے سنجے دت بہت پسند تھا۔ جیسے جیسے بڑے ہوئے تو پسند بھی بدلتی گئی۔ اور شارخ خان سلمان سے ہوتے ہوتے گذشتہ کچھ سال سے رنبیر کپور پر آ کر ٹھہر گئی۔
اب جیسے ہی پتہ چلا کے ” سنجو“ فلم آ رہی ہے۔ جو کپ ہمارے دو پسندیدہ ہیروز کا سنگم ہے۔ تو صبر نا ہوا اور پہنچ گئے سنیما۔ ایک ٹکٹ میں دو کا مزہ لینے۔

سنجو شروع ہوئی۔ گانا آیا ”کیا یہی پیار ہے“۔ ابھے میں گانے کی گہرائی میں جانے ہی والی تھی کے فلم کی اگلی کہانی نے چونکا دیا۔ سنجو رنبیر تو پیچھے رہ گے۔ ایک ڈرگ ایڈیکٹ کی کہانی شروع ہو گئی۔ سچ کہوں تو میرے خیال میں سنجو ہر ریحاب سینٹر میں دکھانی چاہیے۔ اِس سے لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے ذہن بدل سکتا ہے۔ ہر جوان جو نشے کی لت میں ہے وہ یقینا اپنا آپ اِس کہانی سے جوڑ سکتا ہے۔ اور شاید متاثر ہو کر چھٹکاڑا بھی پا سکتا ہے۔ ( کیونک آدھے سے زیادہ نوجواں نسل پر فلموں کا ہی اثر ہے )۔

سنجو سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کے اچھے دوست کی صحبت آپ کو عرش پر اور برے کی فرش پر لا سکتی ہے۔ وقت کا صحیح استعمال۔ رشتوں کی اہمیت۔ اور سب سے بڑھ کے اچھے اور برے فیصلے کیسے آپ کی زندگی کو جنت یا دوزخ بناسکتی ہیں۔ سنجو رنبیر یا سنجے کے فینز کے لیے خاص طور پر چاہے ہو۔ لیکن یہ ایک جدوجہد ہے ہر باپ کی اپنے بیٹے کے لیے۔ ایک بیٹے کی باپ کو سمجھنے کی کوشش کی۔ جنریشن گیپ کی۔ ہر دوست کی اپنے پیارے دوست کے لیے محبت کی خیر خواہی کی۔ پِرِنٹ میڈیا کے کردار کی۔

اِس فلم سے صحیح پتہ چلا ”پر سے پرندہ“ بننے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہ کہانی ہے عام سے خاص بننے کی۔ بد سے بدنام ہونے کی۔ اور آخر میں جو گانا آتا ہے ” کچھ تو لوگ کہیں گے“۔ تو جی جناب لوگ تو کہنے سے باز نہیں آتے چاہیے آپ شیطان بنو یا فرشتہ۔ تو سوچا میں بھی اپنی رائے سے لوگوں کو آگاہ کر دوں۔ اور جی ہاں باپ کا بیٹے سے پیار۔ بیٹے کا ماں سے پیار۔ دوست کا دوست سے پیار۔ انسان کا انسانیت سے پیار۔ ہاں ”یہی پیار ہے“۔

تو جائیں فیملی کے ساتھ جائیں اور فلم دیکھ کر آئیں۔ ایک بھی بوس و کنار کے سین نہیں ہے۔ ایک بھی فحش گانا نہیں ہے۔ ہر کردار بہت ہی جاندار ہے۔ اگر ایسا نا ہوا تو کوئی بات نہیں آ کر ایک دو برے کمنٹ کر دیجیے گا۔ کیونکہ میں نے بھی سنجو سے سیکھا ہے ” کچھ تو لوگ کہیں گے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).