تانگہ سوار فرشتے، جیپ بردار جنات اور احسن تقویم مخلوق


 

فروری 1997ء کے انتخابات ہونا تھے۔ ایوان صدر میں فاروق لغاری بیٹھے تھے۔ میر مرتضی بھٹو قتل ہو چکے تھے۔ بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کی جا چکی تھی۔ برطرفی کے صدارتی حکم کی فرد جرم میں مرتضی بھٹو کے قتل کا بھی ذکر تھا۔ تب سرے محل کی ملکیت زیر بحث تھی اب ایوان فیلڈ پراپرٹی کی ملکیت کا فیصلہ آنا ہے۔ بے نظیر حکومت کی برطرفی کو عدالت عظمی کے سات میں سے چھ ججوں نے درست قرار دیا تھا۔ اس منظر کے تخلیق کاروں میں شاہد حامد اور سیدہ عابدہ حسین کے علاوہ کچھ اور نام بھی لیے جاتے ہیں۔ تصدیق ممکن نہیں۔ مری کے پہاڑی راستے پیچیدہ ہیں اور اقتدار کی اپنی ایک سائنس ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں نئے پاکستان کے موعودہ بانی عمران خان نے فرمایا کہ ان امیدواروں کو ٹکٹ دئیے ہیں جو انتخاب لڑنے کی سائنس جانتے ہیں۔ سائنس میں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے سرسید یہ لفظ اردو لغت میں لے کر آئے تھے۔ ان کے مخالفین نے سائنس اور نیچر کو لادینیت کے مترادف ٹھہرایا۔ اس کے مقابلے میں مذہب، مشرقی روایات، قدامت پسندی اور روحانیت کے جھنڈے بلند کیے گئے۔ سرسید کے بعد ترقی پسند مذہب بیزار ٹھہرے۔ پھر انہیں سرخوں کا خطاب دیا گیا، آج کل ایسے راندہ درگاہ افراد کو لبرل کہا جاتا ہے۔ ہم نے سائنس کو لسانی تشکیلات کے پیچاک میں بدل دیا۔

ستر کی دہائی میں بھٹو صاحب کی ستم رانیاں بہت بڑھ گئیں تو ایک روز فیض احمد فیض نے ڈاکٹر ایوب مرزا سے کہا کہ ’جبر کی بھی ایک سائنس ہوتی ہے۔ امیر محمد کالا باغ یہ سائنس سمجھتا تھا، بھٹو صاحب نہیں سمجھتے‘۔ بات تو فیض صاحب نے درست کہی مگر یہ آدھا سچ ہے۔ جبر کی سائنس کے متوازی تاریخ کا دریا بہتا ہے۔ ہٹلر ہو یا سٹالن، کالا باغ ہو یا مصطفی کھر، استبداد کے ماہر دراصل جبر کی سائنس سے تاریخ کا جدلیاتی تضاد نہیں سمجھتے۔ اور سمجھ بھی نہیں سکتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے الیکشن کی سائنس سمجھنے والے چین کے فلسفی کنفیوشس کا یہ اصول بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کے دریا میں دوسری دفعہ پاؤں رکھنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ بہتے پانی میں ہر لحظہ ایک نیا دریا جنم لیتا ہے۔ عمر خیام نے یہی بات ایک دوسرے رنگ میں کہی تھی۔ ’لکھنے والی انگلی لکھتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے‘۔ یقینی بات ہے کہ عمر خیام کا اشارہ امپائر کی انگلی کی طرف نہیں تھا۔

دیکھیے بات 1997 کے انتخابات سے چلی تھی، عمر خیام تک جا پہنچی۔ ایسی برق اندازی مناسب نہیں۔ ہم تو بیل گاڑی کے زمانے کے لوگ ہیں، فقط یہ یاد دلانا تھا کہ 1997 کے انتخابات میں اچانک جنوبی پنجاب کے عین انہی اضلاع میں آزاد امیدواروں کو تانگے کا انتخابی نشان پسند آ گیا تھا جہاں ان دنوں جیپ پر سواری کا شوق فراواں ہے۔ انتخابی نشان نہ ہوا، 1857ء کے غدر میں بٹنے والی چپاتی ہو گئی، علمائے دیو بند (خدا ان کی قبروں کو نور سے بھر دے) کی غدر پارٹی کا ریشمی رومال ہو گیا۔ یعنی بغیر کچھ کہے سنے پیغام رسانی کرنا۔ چپاتی بٹنے کا قصہ پڑھنا ہو تو ظہیر احمد دہلوی کی کتاب ’داستان غدر‘ دیکھیے۔ ریشمی رومال کی تفصیل جاننا ہو تو اقبال شیدائی کی خود نوشت ’انقلابی کی سرگزشت‘ دیکھیے۔ مگر صاحب یہ باتیں تو پرانی تاریخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہماری حالیہ تاریخ ندامت میں لکھا ہے کہ 1997ء میں فرشتوں نے آزاد امیدواروں کے لئے تانگے کا نشان پسند فرمایا تھا۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں محکمہ زراعت کے اہلکاروں کے لئے فرشتوں کی اصطلاح رائج تھی۔ تین فروری کی رات انتخابی نتائج آئے تو مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی کی 207 میں سے 137 سیٹیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ تانگہ آ گیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی۔ (جو احباب پنجابی نہیں جانتے، وہ ترجمہ پوچھنے کی بجائے اودھ کی اس بولی سے لطف اٹھائیں، سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے….)۔ اس کے بعد اپریل 97ء میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58 ٹو (بی) ختم کی گئی اور نومبر 97ء میں فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ کر دیے گئے، رہے نام اللہ کا۔

پچیس جولائی 2018ء کے انتخابات جمہوریت پسند اور آمریت نواز سوچ میں دوٹوک مقابلہ ہیں۔ ملتان میں محکمہ زراعت کے اہلکاروں کی دراز دستی ہو یا قصور میں محکمہ انہار کے کسی بیلدار کی دفتری غفلت کے باعث ریٹرننگ افسروں کو انتظامی اجلاس میں بلانے کی غلطی، حلقہ این اے 59 میں قمرالاسلام راجہ کی گرفتاری کے لئے وقت کا نامناسب انتخاب ہو یا راولپنڈی کے ہسپتالوں میں سسکتی انسانیت کی دادرسی کا موقع محل، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شمولیت کے روز کالعدم تنظیم کے رہنما پر سے سفری پابندیوں اٹھانا ہو یا بیگم کلثوم کی علالت، جہانگیر ترین کی طبیعت کی ناسازی ہو یا نئے پاکستان کے انقلابی رہنماؤں کا پاک پتن میں…. وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ سب فروعی تفصیلات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انتخاب کیوں لڑا جاتا ہے؟ حکومت بنانے کے لیے۔ حکومت کیوں بنائی جاتی ہے؟ تاکہ قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ یہ اختیار کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ صحت، تعلیم، دفاع، صنعت، زراعت جیسے شعبوں پر اخراجات کی ترجیحات مرتب کر کے۔ مثال کے طور پر امریکا میں کئی برس سے عوامی صحت کے قضیے پر سیاسی کشمکش جاری ہے۔ باراک اوباما نے صحت کا ایک منصوبہ متعارف کروایا، ٹرمپ اسے ملکی مالیات پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ فیصلہ امریکی عوام کو کرنا ہے۔ اور وہ یہ فیصلہ ووٹ سے کریں گے۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے یا الگ ہونے کا عمل ٹکٹوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ اپنے لیے اور اپنے اہل خانہ کے لیے ٹکٹ چاہئیے نیز ان احباب کے لیے جو آگے چل کر اپنا سیاسی دھڑا بنانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ یہ غیرجمہوری اثر و رسوخ کی لڑائی تو ہو سکتی ہے، اس میں جمہوریت کا بنیادی نصب العین نظر نہیں آتا۔ جمہوری بندوبست کا حتمی ہدف عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ اور اس میں یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری ایک قومی امانت ہے جسے لوگ اپنے ووٹ سے منتخب افراد کو سونپیں گے۔ ہم ایک طرفہ مزاج قوم ہیں۔ کل تک میثاق جمہوریت کا مذاق اڑاتے تھے، اب ووٹ کو عزت دینے کے مطالبے پر نالاں ہیں۔ ساٹھ سال پہلے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ایک شخص نے کہا تھا، ’آپ جس منصب کی خواہش میں اتاؤلے ہو رہے ہیں، اس کی اتنی توہین نہ کیجیے کہ کل جب آپ اس کرسی پہ رونق افروز ہوں تو اس کی کوئی عزت ہی باقی نہ رہے‘۔

1997ء میں تانگے کا انتخابی نشان جنوبی پنجاب کی گرد آلود پگ ڈنڈیوں پر اوجھل ہو گیا تھا۔ بیس برس بعد ہم نے مبینہ طور پر جیپ کا انتخاب کیا ہے۔ جیپ چار پہیوں پہ حرکت کرتی ہے اور بلاشبہ ایک موثر ذریعہ نقل و حمل ہے۔ ادھر یکے از انشااللہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی میں جنات کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا ہے جب کہ خلائی مخلوق کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اقرار کیا ہے۔ دوسری طرف جنات کی کچھ کہانیاں اسلام آباد کے مضافات سے بھی سنائی دے رہی ہیں نیز یہ کہ منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ…. جاننا چاہئیے کہ جمہوریت تانگہ سوار فرشتوں کا کھیل نہیں، اور نہ جیپ بردار جنات جمہوری منزل کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ جمہوریت کا تعلق خلائی مخلوق سے نہیں، اس مخلوق سے ہے، پیدا کرنے والے نے جس کی تعریف اپنی کتاب حکمت کے ان لافانی لفظوں میں کی تھی…. لَقَد خَلَقنَا الاِنسَانَ فی اَحسَنِ تَقوِیمٍ۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).