کھیتی باڑی یونیورسٹی کے سربراہ پروفیسر زراعت اقدس


میں کھیتی باڑی یونیورسٹی کا سربراہ جناب پروفیسر زراعت اقدس ہوں۔ میں بہت اہم آدمی ہوں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری معیشت، خوراک اور ٹیکس چوری کا انحصار زراعت پر ہے۔ زراعت ترقی کرے گی تو ملک ترقی کرے گا اور زراعت ترقی نہیں کرے گی تو ٹیکس چوری کے علاوہ سب کچھ ہی بیٹھ جائے گا۔ شعبہ زراعت کی اہمیت کھیتی باڑی یونیورسٹی کو مقدس بناتی ہے اور میں کھیتی باڑی یونیورسٹی کا سربراہ ہوں اس لیے سارے پاکستان میں سب سے اہم ہوں۔

میں چونکہ کھیتی باڑی یونیورسٹی کا سربراہ ہوں مجھے سب پتہ ہے کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ کون سا شعبہ یا کون سا کام کیسے کرنا ہے۔

اگر میں دنیا کا سب سے سیانا آدمی نہ ہوتا تو آج میں اس اہم عہدے پر یعنی کھیتی باڑی یونیورسٹی جیسے مقدس ادارے کا سربراہ نہ ہوتا۔ کیونکہ میری جو بنیادی نوکری تھی وہ لوگ تو اس یونیورسٹی کے پروفیسر بھی نہیں بن سکتے، سربراہ بننا تو بہت دور کی بات ہے۔ جن لوگوں نے میری لائین سیدھی کی اور مجھے اس مقدس شعبے کی جانب پروموٹ کیا ان کے ساتھ ڈیل کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کیونکہ وہ بہت خوشامد پسند قسم کے لوگ تھے۔

مجھے خوشامد پسند لوگ بالکل پسند نہیں ہیں۔ وہ خوشامدی لوگوں کو ترقیاں دیتے ہیں اور ظاہر ہے وہ کسی بھی طرح سے اس ملک کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی خوشامد پسندی، کم عقلی اور خوش خوراکی کی وجہ سے جو فیصلے کیے ہیں اب ملک اور وہ خود اسے ہی تو بھگت رہے ہیں۔

آف کورس میں کھیتی باڑی یونیورسٹی کا سربراہ ہوں مجھے کوئی گائیڈ کر سکتا نہ مجھے کوئی مشورے دے سکتا ہے۔ مجھے سب علم ہے۔

میں معاشیات کا ماہر ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ ملک میں میں کون کون سے منصوبے کہاں اور کیسے برپا کرنے کی ضرورت ہے اور ان منصوبوں کے لیے مالی وسائل کہاں سے لانے ہیں بلکہ کہاں پڑے ہوئے ہیں۔

میں یہ جانتا ہوں کہ پاکستان میں کون سا ڈیم کہاں بننا چاہیے۔ بہت جلد میں حکم جاری کر دوں گا کہ چند ڈیموں پر کام شروع کرو۔ ڈیم لوگوں کے لیے بہت نیک شگون ثابت ہوتے ہیں۔ میری بات کا اگر یقین نہیں ہے تو جا کر ان لوگوں سے ملو کہ جن کے گاؤں منگلا ڈیم جھیل کا حصہ بن گئے تھے۔ بے گھر ہونے کی نعمت اور وقت پر معاوضہ نہ ملنے کی سہولت کی وجہ سے قدرت اور برطانیہ  نے ان پر خاص کرم کیا اور ان کی نسلیں سنور گئیں۔ اب وہ وہاں رہتے ہیں جہاں ہر پاکستانی جانے کی تمنا کرتا ہے لیکن ظالم سازشی لوگ ویزے نہیں دیتے اس لیے ہمارے نوجوانوں کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔

ھاں تو بات کر رہے تھے ڈیموں کی برکات کی۔ یہ باتیں انجینئر تو نہیں سمجھتے، یہ تو صرف میں ہی سمجھ سکتا ہوں۔

اب آتے ہیں بچوں کی تعلیم کی طرف۔ سرکاری سکول تو تعلیم کے لیے نہیں ہوتے۔ وہ تو غریبوں کے بچوں کو کچھ عرصہ کھپانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے میں نے گھوسٹ سکولوں، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طالب علموں پر وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ان کا کام بچے کھپانا ہے وہ کھپ رہے ہیں۔ تو کام تو ہو گیا ناں۔

بچوں کی تعلیم کا ایک اور ذریعہ مدرسے ہیں۔ وہ تو ایک مذہبی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ مدرسے بہت ضروری ہیں۔ ان سے ہمارا معاشرہ چلتا ہے۔ ورنہ لوگ تو صرف بچے ہی پیدا کرتے ہیں۔ اگر مدرسے نہ ہوتے تو انہیں اتنی سمجھ بوجھ اور جرات کون دیتا کہ وہ ایک دوسرے میں کفر دیکھ سکتے۔

بچوں کی تعلیم کا تیسرا ذریعہ پرائیویٹ سکول ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ پرائیویٹ سکول والوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس لیے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پرائیویٹ سکولوں میں کھیتی باڑی، بڑے ڈیم اور ریٹائرمنٹ پر مضامین متعارف کروائے جائیں۔ اس سے لوگوں کی یہ فکر ختم ہو گی کہ جب میں ریٹائر ہوں گا تو وہ اس ملک کو کیسے سنبھالیں گے۔ پرائیویٹ سکولوں پر کچھ اور پابندیوں کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ ویک اینڈ، الیکشن ڈے اور عید کی چھٹیوں کی فیس نہ لیا کریں۔

سرکاری سکول، مدرسے یا پرائیویٹ سکول کہیں بھی کم از کم تعلیمی معیار اور کم از کم سہولتوں کے معیار کا اطلاق نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر میں توجہ نہیں دینا چاہتا، یہ یورپین چونچلے ہیں۔ ہم نے کونسا اپنے بچوں کو سائنسدان، فن کار یا لیڈر بنانا ہے کہ ان چکروں میں پڑیں۔

لیڈرشپ، مینجمنٹ اور بڑھکیں لگانے کے زبردست معیار تو اس ملک میں قائم تھے اور ان میں بہتری بھی آ رہی ہے۔ میں نے کھیتی باڑی یونیورسٹی کی سربراہی سنبھال کر ان میں قابل فخر اضافہ کیا ہے۔

یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ میں لوگوں کو ان کی شکل کے مطابق ڈیل کرتا ہوں۔ میرے چشمے گواہ ہیں کہ میں تو شکل دیکھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن مجھے یہ خوب علم ہے کہ کس کو ڈیل کیسے کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل بھی مینجمنٹ کا یہی طریقہ سیکھے۔ جو بھی آپ سے کمزور ہے اس کو خوب رگڑو۔ یہ لوگ ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ ہاں البتہ جو اس کیٹیگری میں نہیں آتے ان کا احترام کرو اور خاص خیال رکھو۔ اصل مقصد تو کھیتی باڑی یونیورسٹی کی سربراہی ہے نا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik