طیب ایردوان ۔ ترکوں کا با اعتماد گُرو


ترکی کے حالیہ مشترکہ انتخابات (پارلیمانی و صدارتی ) سے پہلے بہت سے مبصرین، خصوصاً مغرب کے اہل ِ نظر کو طیب ایردوان کی جیت ایک انہونی سی بات لگتی تھی۔ لیکن 24 جون کی رات کو یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح ہوگئی کہ ایردوان کو اب بھی ترک عوام کا اعتماد حاصل ہے ۔ وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک اور پھر 2014 میں صدارت کی پہلی باری لینے کے بعد تُرکوں نے دوسری مرتبہ بھی ایردوان کو صدر کے طور پر قبول کیا ہے۔ ترکی کے ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ اب بھی طیب ایردوان کو حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔

خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد آنے والے ترک حکمرانوں کی فہرست میں ایردوان واحد حکمران ہیں جسے مسلسل پانچویں مرتبہ حکمران بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیکھا جائے تو حالیہ صدارتی انتخابات ایک حوالے سے ایردوان کے لئے ٹیسٹ انتخابات بھی تھے۔ کیونکہ جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد اُن کے اقدامات میں نا قابل یقین حد تک شدت آئی جو ان کی مقبولیت کو متاثر کرنے کا ایک اہم فیکٹر ہو سکتا تھا۔ مثلاً مذکورہ فوجی بغاوت کے بالواسطہ اور بلا واسطہ مرتکبین ( جن میں ہزاروں فوجی اہلکار، جرنیل، پولیس اہلکار اور ججز شامل تھے ) کی گرفتاریاں، معطلیاں او ر ذرائع ابلاغ کی آزادی کے معاملے میں سختی کا مظاہرہ کرنا۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود بھی تریپن فیصد ووٹ لینا ان کی مقبولیت کی بین دلیل ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر طیب ایردوان کے اوپر بار بار ترک لوگ کیوں اعتماد کر رہے ہیں؟ اس کیوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں پچانوے سال پیچھے جانا ہوگا۔ جب 1923 میں مصطفی کمال (اتاترک) نے ایک سیکولر ترکی کی بنیاد رکھ کر ترکوں کو اپنے ماضی سے مکمل طور پر توڑ ڈالا۔ اتاترک نے ہٹ دھرم عربوں سے نفرت کی بنیاد پر ترکی کے چپے چپے سے عربی چھاپ کو مٹا کر اذان بھی ترکی زبان میں دینے کا حکم جاری کر دیا اور ہَوا پرستی کو سرکاری سطح پر فروغ دے دی۔ بے شک اس دور میں بے شمار صنعتی اور معاشی انقلابات لاکر اتاترک بہتوں کیلئے رول ماڈل بھی ٹھہرا لیکن مذہب بیزار پالیسیوں کی وجہ سے ان پر تھوک کے حساب سے فتوے بھی لگے۔

1938 میں اتاترک کے انتقال کے بعد عصمت اَنونو کا آمرانہ دور شروع ہوا۔ اس دور میں بھی مذہب بیزاری عروج پر رہی یہاں تک کہ فوج میں مذہبی تعلیم و تربیت پر بھی پابندی لگائی گئی۔ پچاس کی دہائی کے انتخابات میں عدنان میندریس کی ڈیموکریٹ پارٹی کو واضح کامیابی ملی۔ وزیراعظم بنتے ہی میندریس نے اپنے پیشرووں کی مذہب بیزار پالیسیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عسکری سربراہ جمال گرسل نے ان کی حکومت کو ختم کرکے ان ساتھیوں سمیت پھانسی لگا دی۔ پھر فوجی کی نگرانی میں 1965 میں انتخابات ہوئے اور سلیمان دیمرل کی جسٹس پارٹی کی حکومت بنی۔ دیمرل کی جسٹس پارٹی کو 1969 کے انتخابات میں دوسر ی مرتبہ بھی حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن بغاوت کی خوگر فوج نے اب کی بار اُن کی حکومت کی بہت جلد چھٹی کرا دی۔ اگلے مرتبہ یعنی 1971 کے انتخابات میں بلنت ایجوت کی بائیں بازو کی پیپلزری پبلک پارٹی او ر اسلام پسند رہنما ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی ملی سلامت پارٹی (جسے اڑتالیس نشستیں ملی تھیں ) نے مشترکہ حکومت قائم تشکیل کردی۔ چھ سوبیس برس تک عثمانی خلافت کے مذہبی ماحول میں پلنے والے ترکوں نے اگرچہ مصطفیٰ کمال کے سیکولرزم کو ایک لمبے عرصے تک ضرور قبول کیا لیکن بعد میں یہ اس ماحول سے بھی دِق آئے تھے۔ دوسری طرف ڈاکٹر اربکان کی مذہبی تبلیغ بھی رنگ لاتی رہی۔ فوجی غضب کا انہیں مسلسل سامنا رہا اور پارٹی کا نام تک تبدیل کرنا پڑا۔ 1994 کے انتخابات کے نتیجے میں اربکان کی پارٹی (موجودہ نام ویلفیئر پارٹی) ایک مرتبہ پھر مخلوط حکومت کا حصہ بنی۔ اربکان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ دوسری طرف اربکان مکتبِ فکر کے پیروکار طیب ایردوان بھی ویلفیئر پارٹی کے ٹکٹ سے استنبول کے میئر منتخب ہوگئے۔ ابتداء میں ایردوان بھی استاد اربکان کی طرح سیاسی اسلام کے علمبردار تھے لیکن طویل تجربے نے بعد میں ان کو ترک سیاست کا گُر سکھا دیا۔ فوج نے تین سال بعد ڈ اکٹر اربکان حکومت کا تختہ الٹا دیا اور ان کی پارٹی بین کردی گئی۔ دوسری طرف اسی وقت ایک مجمع میں مذہبی نظم سنانے کے جرم میں ایردوان کو بھی چار ماہ کیلئے قید کی ہوا کھانی پڑی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر تاحیات پابندی لگی (جو 2003میں پارلیمنٹ نے ختم کی)۔ ان سب تجربات سے گزرنے کے بعد ایردوان نے ایک نئے بیانیے کے ساتھ عوام میں آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بیانیہ ایک درمیانی راستہ تھا جس پر چلنے کیلئے انہوں نے 2001 میں ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ ‘‘نامی جماعت کی بنیاد رکھی۔ میئر کے طور پر چار برس کی خدمات نے بھی ایردوان کو بے تحاشا عوامی پذیرائی دلوا دی، یوں ان کو یہ اندازہ بھی ہوا کہ ترک عوام نہ تو مصطفی کمال کی سیکولر ازم سوٹ کرتی ہے اور نہ ہی نجم الدین اربکان کا سیاسی اسلام انہیں پسند ہے بلکہ انہیں مضبوط معیشت، سماجی انصاف اور معتدل اسلام کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ پائے کہ آئے دن کی عسکری بغاوتوں سے تنگ آئے ہوئے ترک لوگ اب جمہوریت کو بھی ترس رہے ہیں۔ ترک عوام نے 2002 کے عام انتخابات میں ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ رٹی کو چونتیس فیصد ووٹ سے نواز کر پارلیمنٹ میں اکثریت دلوادی۔ اگرچہ پارٹی نے یہ انتخابات اپنے بانی ( ایردوان) کے بغیر لڑا اور حکومت بھی بنائی لیکن بعد میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2003 میں آئینی ترمیم کے ذریعے ایردوان پہلے رکن پارلیمنٹ اور پھر وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ترکی، جو اس سے پہلے ایک تیسرے درجے ملک سمجھا جاتا تھا، طیب ایردوان کی جاندار پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت یہ دنیا کی سولہوی بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔جہاں پر فی کس آمدنی اس وقت گیارہ ہزار ڈالر کو چھو رہی ہے اور ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگلے دو سالوں میں یہ شرح تیرہ ہزار ڈالر سے بھی متجاوز ہو سکتا ہے۔

سولہ برس کے دور حکومت میں طیب ایردوان کا ایک تاریخی کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ جمہوریت دشمن اور بغاوت کی خوگر فوج کو عوامی طاقت کے ذریعے شہ مات دے دیا، جو یقیناً ترک جمہوریت کے اوپر بڑا احسان ہے۔ تین بار وزیراعظم اور دو مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہونے والے ایردوان کے بارے میں مغربی دنیا کے علاوہ بہت سے مسلم ملکوں اور خود ترکی کے اندر بھی ایک بڑا طائفہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی دنیا کے ہاں ایردوان کسی قدامت پرست اور متعصب مذہبی کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو دوسری طرف بہت سے اسلام پسند حلقوں کی نظر میں وہ نورسی اور اربکان مکتب فکر کا باغی بلکہ مغرب نواز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ طیب ایردوان ترکی کو کمالزم کی طرف لے جاناچاہتے ہیں اور نہ ہی سیاسی اسلام اور جبری طور پر مذہبی قوانین کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ایردوان کا مطمع نظر ترکی کی اسلامی شناخت کا احیاء بھی ہے اور ساتھ ساتھ وہ عوام کو آزادی دینے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔

عالم اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں بھی ان کیلئے ناقابل برداشت ہیں جبکہ عوام کے مفاد میں وہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دلوانے کیلئے بھی کوشاں رہے ہیں۔ ایردوان اگرچہ امریکہ سے کھلی دشمنی کے حق میں نہیں ہیں تو اس کی دوستی سے بھی پناہ مانگتا ہے۔ ترکی کو نیٹو اتحاد کا حصہ بھی تاحال برقرار رکھا ہوا ہے اور دوسری طرف روس جیسے کٹر امریکی حریف سے دفاعی ساز و سا مان خریدنے کا جسارت بھی کرتا ہے۔

امریکہ کو ان کی یہ پالیسیاں قطعاً سوٹ نہیں کرتیں کیونکہ اسے تو ایک ایسے ایردوان کی ضرورت ہے جو اس کا دوست گرچہ نہ سہی، تو کم ازکم روس سے بھی فاصلے پر ہو۔ امریکہ کو تو وہ ایردوان سوٹ کرتا ہے جو سعودی بھائیوں کی طرح اگرچہ وفادار نہ سہی، تو کم ازکم ایران کی بھلائی کو بھی ایک آنکھ
نہ بھاتی ہو۔ ایسا ایردوان، جو امریکہ سے گولن جیسے بھگوڑوں کی حوالگی کا بھی مطالبہ نہ کرتا ہو اور ظالم اسرائیل کو آنکھیں دکھانے کے موڈ میں بھی نہ ہو، نیز معاہدہ ’’لوزان ‘‘ ایکسپائر ہونے کے بعد مدعی بننے کا خواہاں بھی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).