محکمہ زراعت کی فصلیں


پاکستانی فوج

بات صرف اتنی ہے کہ پی پی 219 سے مسلم لیگ ن ملتان کے صوبائی امیدوار اقبال سراج نے مجروح حالت میں اپنے گودام سے اچانک ایک ہنگامی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے الزام لگایا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ان کے گودام پر چھاپا مارا اور ان کو زد وکوب بھی کیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے انھیں بارہا اپنے دفتر میں بلایا اور ن لیگ کا ٹکٹ واپس کرنے کو کہا۔ انہوں نے اپنے منہ پر مارے تھپڑوں کے نشانات بھی میڈیا کو دکھائے۔

نواز شریف کو تو موقع چاہیے فوراً لندن سے ایک بیان داغ مارا یہ سازشیں اب نہیں چلیں گی، ہمارے ورکروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ایسی کوششیں جاری رہیں تو انقلاب آ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ مریم نواز بھی اس موقع پر کہاں چپ رہنے والی تھیں انھوں نے بھی میڈیا کے سامنے آ کر کہہ دیا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے سب کو علم ہے، سب جانتے ہیں۔

اسی اثنا میں اقبال سراج کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آ گئی جس میں انھوں نے اقرار کیا ان کی فیکٹری پر چھاپہ دراصل محکمۂ زراعت نے مارا تھا اور اس میں آئی ایس آئی کا کوئی اہلکار شامل نہیں تھا۔

اس آخری ویڈیو میں اقبال سراج کے ’کم از کم چہرے پر‘ تھپڑوں کے نشان نظر نہیں آ رہے تھے۔ بس اتنی سی بات تھی جس کا یار لوگوں نے بتنگڑ بنا دیا۔ اب الزام تراشی کے اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور تمام قوم کو ملکی ترقی میں محکمہ زراعت کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔

محکمہ زراعت کی اہمیت کا پہلے پہل ہمیں اندازہ ایوب خان کے دور حکومت میں ہوا۔ جب اس محکمے کی شبانہ روز کاوشوں سے ملک میں ایک دہائی سے زیادہ ہریالی رہی۔

زرعی ترقی کے لیے امریکی ٹیموں کو یہاں کاشت کے لیے دعوت دی گئی اور کئی رقبے زرعی تجربات کے واسطے ان کے حوالے کر دیے گئے۔ یہ محکمہ زراعت کا ہی کمال تھا کہ اس وقت ہمارے تنومند فیلڈ مارشل کی 56 انچ کی چھاتی پر ملکہ برطانیہ بھی فخر کرتی تھی۔

انھی دنوں بدزبان لکھاریوں کی فصل کو کیڑا لگ گیا۔ اس کے حل کے لیے رائٹرز گلڈ کا پودا لگایا گیا جو کہ فوری طور پر پھل دینے لگا۔ اگرچہ شعروادب کی سنگلاخ زمینوں پر یہ پودا بہت پائیدار ثابت نہیں ہوا۔ مسلسل آبیاری سے پھل تو فوری دینے لگا لیکن جڑ نہ پکڑ سکا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دس سالہ جشن کے سرمستی میں اس سرزمین کو اتنا پانی دیا گیا کہ ساری فصل کو ہی پالا مار گیا۔ یحییٰ خان نے بڑی مشقت سے خراب زمین اور زرخیز مٹی کو الگ الگ کیا۔

محکمہ زراعت کی اہمیت کا مزید اندازہ ہمیں حضرت ضیاالحق کے دور میں بھی ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکن بیج یہاں بویا گیا اور روسی سنڈی سے نجات کے لیے محکمے نے دن رات کوششیں شروع کر دیں۔ امریکی جہادی بیج کے لیے یہ زمین بہت موافق ثابت ہوئی۔ جلد ہی یہ فصل پک کر تیار ہو گئی اور اس کے پودے اتنے تناور ہو گئے کہ روسی سنڈی کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے۔

اس بیج کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے خود رو پودوں نے جنم لے لیا۔ جن کی جڑیں پاکستان سے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود محکمہ زراعت نے وفاداری نبھائی ان خودرو پودوں کو سینے سے لگا کر ان کی حفاظت کی لیکن جنرل مشرف آئے تو محکمہ زراعت کو معلوم ہوا کہ یہ فصل اب خراب ہو گئی ہے اب اس کے پھل کو کیڑا لگ گیا ہے اس لیے اچانک ایک دن اس فصل کو کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بیج کی رسد تو ختم ہو گئی لیکن خودرو پودے اب سر اٹھا چکے تھے۔ ان کے تنے اتنے مضوط ہو گئے تھے کہ دو دفعہ تو جنرل مشرف تک کا پتہ صاف ہونے لگا تھا۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ گرمی ہو یا سردی، جمہوریت ہو یا آمریت اس ملک میں محکمہ زراعت ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔ یہی فیصلہ کرتا ہے کہ کب اس زمین پر کون سی فصل بیجنی ہے۔ یوریا کا کون سا برانڈ زرخیزی کے لیے اب مناسب ہے، کہاں پانی دینا ہے، کہاں زمین کو بنجر کرنا ہے، کہاں بارش برسنی ہے ، کہاں بادل آنے ہیں، کہاں گھن گرج ہونی ہے، کہاں سیلاب لانے ہیں، کب پھل کے پکنے کا اعلان کرنا ہے۔ کب فصل کاٹ لینی ہے اور کب نقصان کے اندیشے کے سبب لگی لگائی فصل کو نذر آتش کر دینا ہے۔

الیکشن اب سر پر ہیں۔ الیکٹیبلز کی فصل تیار کھڑی ہے۔ پھل پکنے والا ہے۔ بور پڑنے والا ہے۔ بالیاں سنہری ہونے والی ہیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ پنجاب میں محکمہ زراعت کے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ جن پودوں کو وہ پانی لگاتے رہے ان میں خوشے بنانے کا کوئی امکان نہیں۔ اب نہ موسم موافق ہے،نہ آب و ہوا درست ہے، نہ وقت مناسب ہے اور نہ ہی زمیں محکمہ زراعت کے لیے زرخیز ہے۔

ایسا اس ملک کے کسی خطے میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ اب یہ محکمہ زراعت پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اس زمین پر ’جیپ‘ لے کر چڑھ دوڑے یا پھر کھڑی فصل کو آگ لگا دے۔ سب کچھ محکمہ زراعت کے ہاتھ میں ہے۔ غور سے سنا جائے تو پی پی 219 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار بھی تو یہی کہہ رہے ہیں۔ بس اتنی سی بات کا بتنگڑ بن گیا ہے۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp