عمیرہ احمد کیوں مقبول ہیں؟


جناب مسعود اشعر نے اپنے ہفتہ وار کالم میں اردو نقادوں اور جامعات کے اردو کے پروفیسروں کو جھنجھوڑا اور شر مندہ بہ یک وقت کیا ہے۔ بجا کیا ہے۔ انہوں نے عائشہ صدیقہ کے ایک انگریزی مضمون (جو 29 جون کے فرائیڈے ٹائمز میں چھپا ہے) کو بنیاد بنایا ہے جس میں اردو کے عام پسند فکشن کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ عائشہ صدیقہ نے اس مضمون کا عنوان”اردو ہیروز، ولنز اور وکٹمز“ رکھا۔ عائشہ صدیقہ کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ادب اور خصوصاً فکشن میں ماضی، حال اور مستقبل کی جو تعبیرات کی جاتی ہیں، انھیں قارئین قبول کرتے ہیں۔ نیز ”عوامی تخیل“ کی تشکیل میں مقبول عام فکشن کا سب سے زیادہ ہاتھ ہوتا ہے۔ اس استدلال کی روشنی میں انھوں نے اردو کے مقبول عام فکشن کی چند کتابوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اشعر صاحب نے اردو والوں کو بجا طور پر غیرت دلائی ہے کہ انھیں بھی اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہیے۔ ہمیں بالکل اتفاق ہے کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہیے۔

چند سال پہلے لاہور لٹریری فیسٹول کے ایک سیشن میں ٹھیک اسی موضوع پر ایک سیشن تھا، جس میں انتظار صاحب، کشور ناہید صاحبہ کے ساتھ میں بھی شریک تھا۔ اس سیشن کے ماڈریٹر ڈاکٹر آصف فرخی تھے۔ اتنے عرصے بعد اس گفتگو کی ٹھیک ٹھیک تفصیل تو یاد نہیں۔ (شاید اس کی وڈیو ایل ایل ایف نے اپ لوڈ کی ہو)۔ تاہم اتنا یاد پڑتا ہے کہ اس سیشن میں عمیرہ احمد کے ناولوں کا بہ طور خاص ذکر ہوا تھا، اور ان کی مقبولیت کے اسباب پر بھی بات ہوئی تھی۔ سامعین میں سے کسی نے ایک سوال بھی اٹھایا تھا کہ یہ تو پڑھنے والوں کا حق ہے کہ وہ کس مصنف کو پڑھتے ہیں، نقاد یا استاد یا ادیب کیسے لوگوں کو خاص ادب پڑھنے کی سفارش کر سکتے ہیں۔ ا س کے جواب میں کہا گیا تھا کہ بالکل کتاب کا انتخاب قارئین کا جمہوری حق ہے، لیکن کوئی کسی خاص کتاب کا انتخاب کیوں کرتا ہے، اور اس کتاب کا ممکنہ اثر کیا ہوسکتا ہے، ا س پر گفتگوکا حق ان لوگوں کو حاصل ہے جن کا موضوع اس سوال کو سمجھنا ہو کہ آخر کچھ کتابیں کیوں مقبول ہوتی ہیں، اور کچھ کیوں نہیں؟ نیز مقبول عام ادب اور بڑے ادب کا اس تصور کائنات پر کیا اثر ہوتا ہے، جو تمام پڑھنے والوں کے یہاں واضح یا نیم واضح ہوتا ہے؟

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے میں نے شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی کے ایم فل کی دو طالبات کو ایک اسائمنٹ دی تھی، جس میں بنیادی سوال یہ تھا کہ انٹر کے طالب علم نصاب سے ہٹ کر کون سی کتابیں پڑھتے ہیں؟ جواب ہوشربا تھے۔ معلوم ہوا۔ اسی (80) فیصد طالب علم عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس کے اسباب طالب علم وضاحت کے ساتھ نہیں بتا سکے تھے، سوائے اس کے کہ وہ آسان، دل چسپ اور اچھی ہیں۔ لیکن جب میں نے ایم فل کی کلاس سے پوچھا کہ وہ کون سی کتابیں پڑھتے ہیں تو اکثر کا جواب بھی وہی تھا جو انٹر کے طلبا کا تھا۔ قرة العین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین، خالدہ حسین، مستنصر حسین تارڑ کو پڑھنے والے بہت کم تھے! نصاب میں شامل ناول تو اور بھی کم پڑھے جاتے ہیں۔ جن نئے ناول نگاروں کے بارے میں فیس بک پر غلغلہ ہے یا جن کے سلسلے میں آئے روز تقریبات ہوتی ہیں انھیں وہی پڑھتے ہیں جو ان کی تعریف کرتے ہیں۔ ادب کے طالب علموں میں صرف چند وہ لوگ انھیں پڑھ لیتے ہیں جنھوں ان کے استاد بہ طور اسائمنٹ وہ کتاب تفویض کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان دنوں عمیرہ، نمرہ، فرحت اشتیاق وغیرہ ہی زیادہ اور گہری دل چسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ مجھے اس اعتراف میں باک نہیں کہ اس اسائمنٹ کے بعد میں نے ”پیر کامل“ حاصل کیا اور اسے پڑھا، صرف یہ جاننے کے لیے کہ اس کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ مجھے اس سوال کا جواب جلد ہی مل گیا۔

یہ ناول اس موضو ع سے متعلق ہے جس پر آزادی کے ساتھ بات کرنا کم از کم اردو میں محال بنا دیا گیا ہے۔ آپ ”کفار“ اور ”گمراہ“ لوگوں کی مذمت میں جو چاہیں لکھیں، انھیں نیک بنانے کے لیے جس طرح چاہیں کہانیاں ترتیب دیں، لیکن ان کے ”حق کفر“ کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کا ارادہ کریں تو پہلے اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کا بندو بست کر لیں۔ اردو کے دو فکشن نگاروں (اکرام للہ اور کاشف رضا) نے کچھ جرات دکھائی ہے، مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں صرف انھی لوگوں نے پڑھا ہے جو دوسروں کا ”حق کفر“ اصولاً تسلیم کرتے ہیں۔ عمیرہ احمد کی مقبولیت کا راز دو باتوں میں ہے۔ ایک تو اس نے”نیک بنانے“ کے اس پراجیکٹ کو پیش کیا ہے جسے ہمارے عمومی تعلیمی نظام، نصابات، میڈیا، مذہبی و اصلاحی تحریکوں کی تائید حاصل ہے۔ لیکن اس کی تہ میں ایک اور بات باقاعدہ نظریے کی صورت موجود ہے: یہ کہ نئی نسل کو تعلیم دینے کا مطلب انھیں خیالات تخلیق کرنا سکھانے کے بجائے، بڑوں نے جو اچھے اور نیک خیالات قبول کیے ہیں، انھیں مؤثر پیرائے میں نوجوانوں تک پہنچانا ہے۔ نوجوان سوچنے والے دماغ نہیں، اچھے خیالات کو بغیر تنقیدی فکر کے قبول کرنے والے ہیں۔ ”اچھے طالب علم “ مراد فرماں بردار، اطاعت شعار اور اکثر صورتوں میں بستہ بردار طالب علم ہے۔

یہ نظریہ صرف عمیرہ احمد کے ناولوں کے پس منظر میں کام نہیں کرتا، کالجوں اور سرکاری جامعات کے کلاس روموں میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اور یہی نظریہ ان ناولوں کی مقبولیت کا بڑا سبب بھی ہے۔ مسعود اشعر صاحب نے اردو سائنس بورڈ کے جس مذاکرے کا حوالہ اپنے کالم میں دیا ہے، اسی مذاکرے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اورینٹل کالج میں اپنے ایم اے اردو کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ دو تین بار انھوں نے سوال کرنے کی گستاخی کی تھی، جس کی سزا انھوں نے اساتذہ کی ناراضی کی صورت میں بھگتی تھی۔ وہ زمانہ انیس سو ساٹھ کی دہائی کا تھا۔ اکیسویں صدی میں بھی صورتِ حال تبدیل نہیں ہوئی۔ ان کلاس روموں میں اب سوال کرنے والا طالب علم زیادہ بڑی سزا بھگتتا ہے۔ اگر وہ ایم اے کا ہے تو ایم فل میں داخلے سے محروم رہ سکتا ہے اور اگر ایم فل کا ہے تو سمجھیے اس کے پی ایچ ڈی میں داخلے کا امکان گیا اور اگر پی ایچ ڈی میں ہے تو پھر کئی سالوں کے لیے خوار ہونے کے لیے تیار رہے۔ ایسے میں وہ پی ایچ ڈی بھی کر لے اور کسی کالج یا یونیورسٹی میں استاد بھی لگ جائے تو سوال اٹھانے اور نئے خیالا ت قبول کرنے کے خوف کے ساتھ جیے گا، جسے وہ سادیت پسندی کی عادت کے ساتھ اپنے طلبا کو منتقل کرے گا۔ یہ پاکستان کی سب سرکاری جامعات پر صادق آتی ہے۔

دوسری جو بات عمیرہ احمد کو مقبول بناتی ہے، وہ اس کی تیکنیک، اسلوب اور مکالمے ہیں۔ یہاں وہ ٹھیک اسی راستے پر چلی ہے، جس پر ہمارے مقبول عام مذہبی خطیب چلے ہیں، یعنی عوام کی زبان میں، سادہ طریقے سے، ہلکے شوخ ڈرامائی انداز میں اپنی بات کہنا، اور خالص عقلی دلیل کی بجائے اتھارٹی کو دلیل بنایا! ہمارے سماج میں ”روشن خیال ” طبقے کی ناکامی کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ اس نے بات کرنے کا پاپولر طریقہ کم ہی اختیار کیا ہے۔ وہ ایک طرح کے اشرافیائی احساس کے ساتھ جیتا ہے۔ یہی اشرافیائی احساس اردو نقادوں کے یہاں بھی موجود ہے جو عام پسند ادب پر بات کرنے، یہاں تک اس ادب کے نمائندوں کے نام لینے میں بھی مانع ہوتا ہے۔

مسعود اشعر صاحب نے مقبول عام ادب کے سلسلے میں اہم ترین نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کا ادب لکھا جاتاہے۔ پر دنیا اور ہم میں ایک فرق ہے۔ مغرب میں تنقیدی دماغ پروان چڑھایا جاتا ہے جو اس ادب کو اس کے مقام یعنی حاشیے پر رکھتا ہے، مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم سب سے زیادہ جس چیز سے بدکتے ہیں وہ تنقید ہے۔ ہمارے نقاد خود تنقید کی مذمت کرتے ہیں، کبھی اسے دوسرے درجے کی سرگرمی قرار دیتے ہیں، کبھی ادب کے دربار سے نقاد کی مسند اٹھا دینے کا فتویٰ دیتے ہیں اور کبھی محض تاثر کو تنقید کا نام دیتے ہیں۔ جو تنقید ادب میں معنی کی تشکیل کے پورے عمل کا جائزہ لیتی ہے،اور اس میں طاقت کی کارفرمائی کی صورتوں کا محاکمہ کرتی ہے، ادبی متن کو سماجی و ثقافتی بیانیوں کی آماج گاہ تصور کرکے اس کا تجزیہ کرتی ہے، مصنف کے تخیل کو سماجی قرار دے کران سماجی ساختوں کی تحلیل کرتی ہے جو ادب پارے میں سرایت کر جاتی ہیں اور اکثر مصنف کو علم بھی نہیں ہو پاتا، اس تنقید کے خلاف تلواریں نیام سے نکال لی جاتی ہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی بیش تر تنقید سوانحی و عمرانی یا تھوڑی بہت نفسیاتی ہوتی ہے، اور وہ بھی بڑی معصوم قسم کی، یعنی خود رائے قائم کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے دوسروں کی آرا کو یادداشت کا حصہ بنانے پر زور دیتی ہے، جب کہ ادبی مجالس میں کی جانے والی تنقید مجموعی طور پر تاثراتی ہوتی ہے اور تاثر بھی اکثر اتنا ہی گہرا یا سطحی جتنی مجلسی نقاد کی شخصیت!

اشاعت اول: 3 جولائی 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).