کیا ہمیں اقبال کو پھر سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟


سوشل میڈیا کی ایک محفل میں دوست اس لطیفے سے لطف اٹھا رہے تھے کہ کسی مغربی یونیورسٹی میں اقبال کی شاعری سے شناسا فلسفے کے ایک پروفیسر صاحب کو خطباتِ اقبال پیش کیے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی تو شاعری ہی ہے۔ اقبال چونکہ ہمارے ہاں ایک مفکر نہیں بلکہ ایک ایسا سیاسی و سماجی مسئلہ ہے جس پر دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں، لہٰذا فریقین بھی دو فکری حلقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہمیشہ کی طرح طرفداران کا حلقہ پوری جذباتیت سے اقبال کے دفاع میں مصروف تھا اور نقاد حضرات یہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ اقبال فلسفی تو کیا کوئی خاص مفکر بھی نہیں۔ ایسے میں راقم کو سید علی عباس جلال پوری کی شدت سے یاد آئی جنہوں نے کئی سال قبل اس درسی بحث کو کسی حد تک ایک حتمی نتیجے پر پہنچا کر کافی کوشش سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اقبال بنیادی طور پر ایک متکلم ہیں نہ کہ سکہ بند فلسفی۔

جلال پوری صاحب ٹھہرے فلسفے کے استاد اور ان کی نثر نگاری کے کرشمے ان کے علم و فضل کا منہ بولتا ثبوت، لیکن ہم طالب علموں کو متکلمین اور اہل فلسفہ کے درمیان ان کی کھینچی گئی حدِ فاصل کافی مبہم نظر آئی۔ سادہ سی وجہ یہ کہ فلاطینوس، سینٹ آنسلم، سینٹ آگسٹائن اور پھر ابن رشد، ابن عربی اور موسی ابن میمون وغیرہ بھی ہم طالبعلموں کے نزدیک تو اہل فلسفہ میں سے ہی ہیں۔ خاکسار کی رائے میں اس قضئیے کو نمٹانے کا یہی ایک طریقہ ہے جتنا جلد ہو سکے ان بے فائدہ اور غیر دلچسپ درسی بحثوں سے اپنا دامن چھڑا لیا جائے۔ ایک سرسری سی نگاہ ڈالی جائے تو اقبال کے وفادار ترین مداح ان کی شاعری ہی کے مداح ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شدید ترین نقاد بھی اصل میں ان کی شاعری ہی سے خائف ہیں سوائے ایسے حضرات کے جو خود شاعر ہیں اور ان کی تنقید و تعریف مثبت تکنیکی بنیادوں پر استوار ہے۔

ایسے میں ہمیں اقبال کے حوالے سے بطور فلسفی، بطور متکلم یا بطور نظریہ ساز شاعر، اس کا درسی مقام متعین کرنے کی بجائے کچھ اہم نکات پر بحث کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بنیادی نکتہ شاید یہی ہے کہ کیا ہمیں اقبال کے مطالعۂ نو کی ضرورت ہے اور اس مطالعے سے کون سے فائدے متوقع ہیں؟ ستر سال کی بحثوں، مقالات کی جلدوں، دروس کے سلسلوں اور تنقید و تعریف کے انباروں کے بعد کم از کم اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اقبال ہمارے لئے مذہب، ملک و ملت اور معاشرے کے ایسے رومانوی تصور کا مسئلہ بن کے رہ گیا ہے جہاں سماج دو خانوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ رومانویت کیا فی نفسہٖ کوئی ایسی ناپسندیدہ تہذیبی و ثقافتی جہت ہے جس کو بیماری سمجھ کر اس سے جان چھڑائی جائے؟ یا رومانویت پسندی اور عقلیت پسندی میں ایک توازن کی تلاش کسی بھی مثبت تہذیبی سفر سے عبارت ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عقلیت پسندی بھی اپنی شدت میں محض ایک رومانوی نرگسیت سے زیادہ کچھ نہیں؟ پھر شاید ہمیں فلسفیانہ رومانویت اور سماجی نرگسیت میں بھی فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ خیر یہ تو کچھ ویسے ہی اٹکل پچو ضمنی سوالات ہیں، اہم بات تو یہ ہے کہ اگر اقبال ہی اس بٹے ہوئے سماج کی استعاراتی سرحد ہے تو کیا اس سرحد کے آر پار ان دو انتہاؤں کو ایک دوسرے میں ضم کردینا یا کم از کم ایک دوسرے کے قریب لے آنا سماجی لحاظ سے کوئی مفید طرزِ فکر نہیں؟

ہماری طالب علمانہ رائے یہی ہے کہ اقبال کی فکر پر تنقید اس طرح ہونی چاہیے کہ اسے جذبات کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور اس کے مقاصد واضح ہوں۔ اگر تو اقبال کا بُت پاش پاش کرنا مقصود ہے تو وہ شاید فی زمانہ کوئی مفید تنقیدی کام نہیں کیوں کہ اس بُت کی کہاں اس کی اصلی شکل میں پوجا کی جا رہی ہے! یہ اور بات ہے کہ بُتوں کا پاش پاش ہونا یقیناً کچھ مزاجوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے اور یہ بھی مزاجوں ہی کا تفاوت ہے کہ کونسا تہذیبی حوالہ کس کے لئے معتبر ٹھہرتا ہے۔ جلال پوری صاحب کی روح سے معذرت کے ساتھ، اگر ایک ساعت کے لئے ڈرتے ڈرتے اپنی طالبع لمانہ حد پار کی جائے تو اساتذہ شاید اتفاق کریں گے کہ فلسفیوں کے معاملے میں بھی کچھ مزاجوں ہی کی ہیرپھیر نظر آتی ہے۔

ہمیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی بنیادی طور پر ماورائے عقل کچھ وجدانی مفروضے ہیں جو اپنے سامنے موجود بہت سی راہوں میں سے انتخاب یا کم از کم ترجیح میں مدد دیتے ہیں۔ وہاں تو عقل کی تعریف اور ماہیت کے مسئلے پر ہی ساڑھے تین ہزار سال سے بحث جاری ہے۔ عام دیکھا گیا ہے اہل فلسفہ ان میں سے کئی راہوں پر سفر کرتے ہیں اور کچھ دور چل کر واپس نئی راہ بھی منتخب کرتے ہیں۔ ہر ایک کے ہاں ان گنت نفسیاتی و عقلی وجوہات ہیں اور دلائل کے مختلف درجات پر بات جاری رہتی ہے۔ ایسے میں ہم کم علموں کو تو اقبال کے بحیثیت فلسفی یا بطور متکلم چناؤ کی درسی بحث میں کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ بات اہم ضرور ہے کہ اس طرح تاریخِ فکر میں اقبال کا مقام جانچنے میں ضرور آسانی ہوتی ہے جو ایک ضمنی سا سوانحی مسئلہ ہے۔

دوسری طرف ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے رومانوی تصور کے ساتھ کھڑے اقبال کے ان جذباتی طرفداران پر بھی حیرت ہوتی ہے جو اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ انہیں فلسفی نہ مان کر ان کے فکری مقام کی تخفیف کی جا رہی ہے۔ فی نفسہِ فلسفے کی حد تک سچ بات تو یہی ہے کہ مسلم تہذیب میں تفلسف کو کچھ خاص قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ ازمنۂ وسطی میں غزالی کی فکر ہو یا دورِ حاضر میں شبلی نعمانی کا علم الکلام، اسے فلسفے کی اصل کلاسیکی روایتوں اور جدید مناہج سے تو کچھ خاص علاقہ نہیں۔

الفارابی، ابن سینا، ابن رشد اور پھر ابن عربی تک تقریباً دو سو سال کا کام تو مغربی فکرین کی شروح اور حواشی ہی سے ایک بار پھر جدید قاری کی دسترس میں آیا ہے۔ دوسری طرف غزالی کی اہم کتب کے اردو ترجمے تیسرے درجے کے کتب بازاروں میں بھی دستیاب ہیں۔ مسلم ذہن تاحال مشرق و مغرب کی اس دوئی ہی سے باہر نکلنے کے قابل نہیں ہو سکا جو کچھ مغربی مفکرین کی مشرق سے رومانویت اور استعماری مغرب کے فکری و سماجی جبر کے ردعمل میں وجود میں آئی اور کچھ مشرقی اذہان نے اسے معقول مانتے ہوئے مزید نظریہ بندی کے لئے منتخب کر لیا۔

یہاں بھی اقبال ہمیں اس دوئی سے کافی فاصلے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ جہاں وہ ایک مشرقی روح ہونے سے انکار نہیں کرتا وہیں اس کی یہ بھی کوشش ہے کہ مغرب و مشرق کی اٹل دوئی کے درمیان کچھ مغربی اہلِ فلسفہ وکلام، اہلِ سائنس اور مشرقی حکماء کے کام کو قرآنی وحی سے اخذکیے گئے مفروضوں کے اثبات میں پیش کر سکے۔ ہماری رائے میں یہ کام ہم جیسے ان اذہان کے لئے بہت ندرت رکھتا ہے جو خدا پر ایمان کو ایک وجدانی مفروضہ مانتے ہوئے اسے اس طرح عقلی بنیادیں فراہم کرنے میں دلچپسی رکھتے ہیں کہ نہ صرف مشرق و مغرب کی فلسفیانہ روایات بلکہ تمام ابراہیمی، ہند آریائی اور چینی مذہبی روایات سے استفادہ بھی جاری رہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments