اجے چھہتر کلومیٹر ہور۔۔ اور تتو کا تارڑ !


\"waqarبرسین سے چلاس تک کا سفر مریخ کا سفر ہے۔ سبزہ ختم ہو جاتا ہے۔ آدم زاد کم نظر آتا ہے، نظر آتا ہے تو ٹرک چلاتا ہی نظر آتا ہے۔

پہاڑ ایک دوسرے کی ضد میں بلند سے بلند تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف تنگ اور تاریک گھاٹیوں میں صاف شفاف نالے نمودار ہوتے ہیں۔ یہ گھاٹیاں کسی بھی مہم جو سیاح کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کیوں نہ ان گھاٹیوں میں سفر کر کے دیکھا جائے اور یقینا ان گھاٹیوں اور تنگ و تاریک دروں میں ایسے مقام ہوں گے کہ جہاں کسی بھی انسان کا پہلا قدم پڑے گا۔ ان گھاٹیوں اور دروں میں سفر کرنے والوں کو لاکھوں سال قبل کا ماحول مل سکتا ہے۔

 فطرت اپنے جوبن پر نظر آ سکتی ہے۔ کوہستان بہت کمال سر زمین ہے۔

برسین سے چلاس تک بھلے سفر مریخ کا ہو، لیکن ایک فرق ہے اور حسین فرق ہے کہ سمر نالہ صرف زمین پر ہی ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر اللہ میاں سمر نالہ نہ بناتے تو کیا ہوتا؟

\"13128648_10154265408218578_1001443917_o\"بہت سے لوگ سفر کی تاب نہ لا پاتے۔

صحراﺅں میں دور نخلستان کی پہلی جھلک کیا خوشی دیتی ہو گی جو قراقرم ہائی وے کا ایک موڑ مڑنے پر اچانک کچھ تعمیرات اور سمر نالہ کے پانی خوشی دیتے ہیں۔

سمر نالہ میں ایسا کیا ہے؟ سمر نالہ کس جہاں کا نام ہے؟

تپتے پہاڑوں میں گھنٹوں سفر کے بعد جھاگ اڑاتے شفاف ٹھنڈے پانیوں کی چہروں پر پڑتی پھوار کا نام سمر نالہ ہے۔

چارپائیوں پر دراز چاروں جانب بلند پہاڑوں میں اپنے آپ کو ایک پیالے میں محسوس کرنے کا نام سمر نالہ ہے۔

اپنے گھر اور گلی کا نمبر بھولنے کا نام سمر نالہ ہے۔

\"13181033_10154265407973578_228774149_n\"آپ لوبیہ اور چکن کا آرڈر دیتے ہیں اور ساتھ ازراہ محبت بھنڈی، گوشت، چنے اور تازہ سلاد کے مفت آجانے کا نام سمر نالہ ہے۔

دن کے وقت بھی سیکڑوں برقی قمقموں کے جلتے رہنے کا نام سمر نالہ ہے کہ اپنی ٹربائن ہے بجلی مفت ہے۔

ٹھنڈے پانی کے حوض میں تیرتے تربوزوں کا نام سمر نالہ ہے۔

ہر حوض کے اطراف چھ لگاتار بہنے والے نلوں کا نام سمر نالہ ہے۔

خدمت کرتے ہوٹلوں کے ملازمین، آپ کو دیکھ کر مسکراتے ہیں، ایسی مسکراہٹ کا نام سمر نالہ ہے۔

سمر نالہ سے جیسے ہی آپ چلاس کے لیے نکلتے ہیں تو سڑک کنارے سنگ میل پر نظر پڑتی ہے جس پر چلاس 76 کلومیٹر لکھا ہوتا ہے۔ یہ اطلاع گولی کی طرح لگتی \"13152761_10154265407343578_1544972939_n\"ہے اور فی البدیہہ روہانسے لہجے میں چار لفظ زبان سے نکلتے ہیں اور آواز کی لہریں آپ کے اپنے کانوں تک ہی بمشکل پہنچتی ہیں۔ یہ چار لفظ ہوتے ہیں۔

”اجے چھہتر کلومیٹر ہور“

سمر نالہ کے بعد پہاڑوں اور دریا کے ساتھ واحد انسانی تعمیر سڑک آپ کو احساس دلاتی ہے کہ آپ کا تعلق کس نوع سے ہے۔

 شتیال کا گاﺅں بہت ہی حیرت انگیز بستی ہے۔ آس پاس کے علاقوں کے ٹانواں ٹانواں مکینوں کے لیے شتیال بازار، فورٹریس سٹیڈیم یا لبرٹی مارکیٹ سے کم نہیں لیکن حقیقت میں سڑک کے دونوں جانب بیس لکڑی سے بنی ڈبہ نما دکانوں کا نام شتیال ہے۔ ان دکانوں میں ایک دکان گوشت کی ہے، تین چار دکانیں کپڑوں کی ہیں، ایک یا دو نسوار کی دکانیں ہیں اور بازار عبور کرتے ہی ایک نالہ بہہ رہا ہے جہاں ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی ہے جس کے اثاثہ جات میں فرنیچر بھی شامل ہے جو پانچ چارپائیوں پر مشتمل ہے۔ رہے نام اللہ کا

شمال کے دورافتادہ علاقوں میں دکان کیا ہوتی ہے یہ شہری دماغ کے تخیل میں آنا ذرا مشکل ہے لیکن ایک واقعہ یاد آ رہا ہے شاید اس سے دکان کی شکل واضح ہو۔

\"13115330_10154265406668578_2003349828_n\"ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رائے کوٹ پل سے تتو گاﺅں تک کوہ پیمائی کرنی تھی۔ اب یہ ایک جیپ ٹریک ہے جو ڈیڑھ گھنٹہ میں آپ کو تتو پہنچا دیتا ہے لیکن پیدل یہ سفر پورے دن کا تھا۔ اس سفر میں پانی اور سایہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ پانی کا ذخیرہ ختم ہونے کی صورت میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے یہ سفر پیدل ہی کیا ہوا ہے۔ تارڑ صاحب نے ساتھ ایک گدھا لے لیا تھا۔ اور اس گدھے کے سائے میں سفر کرتے رہے تھے۔

 تتو وہی گاﺅں ہے جہاں کی عورتیں رنگین کپڑے پہننے سے احتراز کرتی تھیں کہ کہیں حسد میں آکر نانگا پربت کی پریا ں ان کو نقصان نہ پہنچا دیں۔

جب میں نے یہ سفر کیا تھا تو پانی کے ذخیرہ کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے آدھے راستے میں ہی دوست بے ہوش ہونا شروع ہوئے خیر بہت ہی تلخ یاد ہے، تفصیل سے پھر کبھی سہی، یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں میں سب کو چھوڑ کر بھاگا تاکہ پانی کا بندوبست کروں اور مقامی گاﺅں والوں کو بھیجوں تاکہ یہ قیمتی زندگیاں بچائی جا سکیں۔ پانی وغیرہ جب پیچھے آتے دوستوں تک پہنچ گیا تو سوچا کہ کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ خریداری کر لی جائے۔ دکان کا پوچھا تو معلوم ہوا تتو میں ایک ہی دکان ہے۔ فورا دکان ڈھونڈی۔ دکان میں داخل ہوا اور تقریبا مبلغ چار سو روپوں میں ساری دکان خرید لی۔

 \"13162118_10154265407643578_1374995162_n\"پہلی دفعہ اپنی بھیانک امارت کا احساس ہوا۔ یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ دکاندار کے کیا تاثرات تھے کہ جب ایک ہی گاہک نے چند ثانیوں میں اس کی ساری دکان خرید لی تھی، تین روپے والے لیمن بسکٹ کے سارے ڈبے، تمام ٹافیاں حتیٰ کہ ٹینڈر اور کے ٹو سگریٹ کی دس کی دس ڈبیاں۔۔۔

تو شتیال کی دکانیں بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔

پھر آپ سر زمین گلگت بلتستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک ایسی سرزمین کہ جس کے دیدار کے لیے زمین کے سب کونوں، نکڑوں سے سیاح سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔

 موسم صاف ہو تو نانگا پربت دکھائی دیتا ہے اور بالکل صاف اور واضح دکھائی دیتا ہے۔

\"13162564_10154265406678578_1468517986_n\" آپ کہساروں سے بلند پہاڑوں کی جانب جاتے ہیں تو بلند پہاڑوں کی سرزمین گلگت بلتستان میں نانگا پربت وہ پہلا دیو ہے جو نظر آتا ہے۔

شتیال سے چلاس تک ویرانی سی ویرانی ہے۔ پتھروں کا رنگ کالا سیاہ ہے جیسے دھوپ میں جھلس گئے ہوں۔

 یہاں آپ کی ملاقات آپ کے اپنے ساتھ ہونے کے امکانات وسیع ہیں۔

 شتیال سے چلاس کے درمیان علاقے میں انسان اگر خیمہ زن ہو اور پندرہ دن تک اکیلا خیمہ زن رہے اور کہے کہ خدا نہیں ملا تو ہو سکتا ہے پھر نہ ہی ہو۔

یہاں کے بارے میں ہی تارڑ صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک ایسی ویرانی ہے جہاں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں آپ خاموشی سن سکتے ہیں۔

انسانوں کی بنائی تعمیرات جن میں بلند مینار اور دور سے نظر آنے والی عمارتیں شامل ہیں کا کردار بہت کمال رہا ہے۔

 مہینوں مسافت کرنے والے مسافروں کے دلوں کو ان تعمیرات کی جھلک نے کمال خوشیوں سے نوازا۔

\"13161108_10154265408183578_1957966992_o\"جب بھی ایسی تعمیرات وغیرہ کی فہرست بنائی جائے گی تو چلاس کا نیلا بورڈ اس میں ضرور شامل ہو گا۔

چلاس کا نیلا بورڈ جو ایک سنگ میل ہے اور چلاس آنے کی پہلی اطلاع ہے۔ جب گرمی سے آنکھیں ابل رہی ہوتی ہیں اور چٹانوں کے گہرے خاکی اور کالے رنگ کے علاوہ گھنٹوں کوئی اور رنگ دکھائی نہیں دیتا تو ایسے وقت میں نیلا بورڈ کیا خوشی دیتا ہے واقفان شمال جانتے ہیں۔

یہ نیلا بورڈ اطلاع ہے کچھ دکانوں کی جہاں ٹھنڈی ٹھار بوتلیں ہیں۔ بسکٹ ہیں، خشک میوا جات ہیں، بریانی کی ایک دکان ہے، ہوٹلز ہیں جن کے خوبصورت لان ہیں، کمروں میں کولر ہیں جن کی ہواﺅں میں ننھے پانی کے قطرے ہیں۔

یہ نیلا بورڈ واش رومز کے آنے کی اطلاع ہے۔ تہذیبی جمالیات کو چاہے ناگوار گزرے لیکن ہائے واش روم کتنی بڑی نعمت ہے ان سے پوچھیے جو اس نیلے بورڈ کے آنے سے آٹھ گھنٹے پہلے داسو کے واش روم میں گئے تھے۔ اور اب کہیں واش روم جانے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

یہ سب بھی جمالیات ہے۔

سلام ہو چلاس پر اور اس کے نیلے بورڈ پر۔

(دیکھئے مستنصر حسین تارڑ کو، سمر نالہ میں گھو متے پھرتے اس ویڈیو میں)

 

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments