میڈیکل یونیورسٹیوں کی فیکلٹی میں چھپے جنسی درندے 


تقریباً دس سال قبل پنجاب میڈیکل کالج میں فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس میں داخل ہوا۔ ٹین ایجر تھے اس وقت، ہارمونزکا سیلاب تھا اور کلاس میں لڑکیوں کی شرح تین چوتھائی تھی۔ اپنے ہی جیسے تُھڑے ہوئے سینیئرز کی“گائیڈنس“ بھی شاملِ حال تھی۔ پر اللہ نے دستگیری کی، سنبھلے رہے، اچھے دوست ملے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جس جگہ پانچ سال گزارنے تھے وہاں کی بابت چشم کشا حقائق بھی معلوم ہوتے گئے۔

پتا چلا کہ ہم ٹین ایجروں میں ہارمونز نے جذبات اتنے نہیں سلگائے ہوئے جتنی چند ادھیڑ عمر اور بزرگ پروفیسروں میں آگ لگی پڑی ہے۔ پہلے دن سے سنتے آئے کہ ایک سینیئر فیکلٹی ممبر کے زیر سایہ ایک ”سوسائٹی“ ہے جہاں ”رنگ بازی“ کے بڑے مواقع ہوتے ہیں، باتیں تھیں ہر کوئی کرتا تھا۔ سوچا ہوتا ہو گا پر ”اسیں آپ تے نہیں دیکھیا“ (ہم نے خود تو نہیں دیکھا)۔ پھر کچھ بڑے ہوئے تو سُنا وہی ایک سینیئر فیکلٹی ممبر ہیں جن کے کمرے میں بچیاں دانستہ اکیلی کبھی نہیں جاتیں۔ پھر انہی کے بارے میں سنا کہ کمرے کا دروازہ کھول کر وائیوا لینے کاآرڈر دیا گیا ہے انہیں۔ سنا اور اگنور کر دیا، کہ ”اسیں کیہڑا آپ دیکھیا“۔ حسن ظن بھی کوئی چیز ہے۔

مزید بڑے ہوئے تو جو سکینڈل سننے میں آتے رہے وہ غلیظ سے غلیظ تر ہوتے گئے۔ وہی منطق لگا کر سب ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتے رہے۔ ہاؤس جاب میں پہنچے تو سمارٹ فونوں کا معاشرے پے سکہ مکمل طور پر جم چکا تھا۔ اب صرف سماعتوں سے نہیں بلکہ وڈیو اور تصویری شکل میں سکینڈل بالمشافہ بصارتوں سے ٹکرا کر شرمندہ کرنے لگے۔ اب آنکھیں بند کرنا ممکن نہ رہا۔

بچیوں کو وائیوا میں فیل کرنے کی دھمکی دے کر جنسی بلیک میلنگ، انہیں آمنے سامنے یا میسجوں پے گھٹیا گندے لطیفے سنا کر جذبات کی تسکین، فحش تصاویر بھیجنے کا سلسلہ، وارڈوں میں ڈیوٹی کم کروانے یا چھٹی کے لیے جنسی نوعیت کے مطالبات، مجبور کر کے لیڈی ڈاکٹروں کا استحصال، پی جی ٹرینی (جو ڈیزرٹیشنdissertation سائن کروانے کے لیے اور وائیوا پاس کرانے کے لیے مکمل طور پر سپروائزر کے کنٹرول میں ہوتے ہیں) ان کو مجبور کر کے استعمال کرنے کے واقعات۔

بلکہ لاہور کے ایک رنگین مزاج گائنی کے مشہور پروفیسر صاحب (جن کا ایک بڑے پاورفُل خاندان سے تعلق ہے) کا تو اس معاملے میں خوب چرچا سنا کہ بڑے کری ایٹو قسم کے ٹھرکی ہیں۔ موصوف اپنی پسند کی پوسٹ گریجویٹ ٹرینی لڑکی چُن کر اپنے ساتھ ہر آپریشن میں جبراً واش اَپ کرواتے ہیں، آپریشن کے دوران پاس جا کر رومانی گانے گاتے رہتے ہیں، دوپہر دیر تک پاس بغیر وجہ بیٹھے رہنے پے مجبور کرتے ہیں، موقع دیکھ کے شادی کا لارا لگا کر حد پار کرنے کا مطالبہ بھی کر ڈالتے ہیں۔ موصوف کے چند فرمودات میں سے ایک نادر موتی: ”کوئی کب تک انکار کر سکتی ہے، ایک دن تو قابو آنا ہی پڑتا ہے“۔

خیر تو بات ہو رہی تھی ”ایک سینیئر فیکلٹی ممبر“ کی۔ ان کا شعبہ ایسا تھا کہ براہ راست صرف انڈر گریجویٹ بچیوں تک رسائی ممکن تھی اور اس میں بھی موبائل نمبروں تک یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی نہیں ہوسکتی تھی۔ موصوف کی عقل کو داد دیجیے کہ ایک سوسائٹی بنا کر یہ مشکل بھی حل کر لی۔ ظاہر ہے بچیاں غیر نصابی، فلاحی سرگرمیوں کے لیے اخلاص کے ساتھ سوسائٹی کا حصہ بنتی رہتیں اور جناب ان کےسوشل میڈیا اور موبائل تک اپنی پہنچ یقینی بناتے رہتے۔ پھر طریقہ واردات پے غور کریں کیسا نفیس اپنایا کرتے: پہلے گُڈ مارننگ گُڈ نائٹ، پھر دھیرے دھیرے سستے ذومعنی لطیفے، پھر فحش مواد اور آخر میں سیدھے مطالبات۔

اس دوران جس سٹیج پر لڑکی کو نیت کا علم ہوتا وہ اپنی بساط اور حالات کے مطابق جھٹ کدیتی۔ کوئی مجبوراً وقتی طور پے برداشت کی پالیسی اپنا کر موصوف کو اگنور کیے رکھتی، کوئی بلاک کرکے سوسائٹی سے کنارہ کش ہو جاتی۔ مگر موصوف انتہائی مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں اور متاثرین کے بقولآہنی ارادوں کے حامل ہیں۔ نظر اندازی کوئی اثر نہ کرتی، بلکہ مرض کو اور بڑھا دیتی۔ کئی لڑکیاں انہی کےسبجیکٹ میں سپلی کے خوف سے، کئی ان کے دیگر پیٹی بھائیوں اور خیر خواہ پروفیسروں (جن میں کئی برائے نام بڑے دین دار بھی مانے جاتے ہیں ) کے عتاب سے ڈر تے ہوئے، کئی دیگر مجبوریوں سے کسی نہکسی طرح یہ جنسی ہراسانی برداشت کرنے پر خود کو مجبور پاتیں۔

حال ہی میں ایک متاثرہ طالبہ نے موصوف کی اصلیت منظر عام پر لانے کی ہمت جمع کی۔ تمام گندے میسجوں پے مبنی سکرین شاٹ پبلک کر دیے۔ طالبہ نے تین سال تک برداشت کرنے کے بعد یہ اقدام اٹھایا۔ ہمارے ادارےکے فارغ التحصیل سابق کی اکثریت نے متاثرہ کی حمایت کی۔ اخبار میں خبر بھی لگی۔ معاملہ تین دن تک لٹکا رہا، دنیا نے دیکھا کہ ادارے کی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ادارے کے موجودہ طلبہ نے ایک گروپ کی شکل میں وی سی صاحب کے پاس درخواست بھی دی کہ الزامات کی انکوائری ہو۔

یہاں سے کہانی دلچسپ رخ اختیار کرتی ہے۔ ”بیٹا جب تک ہمیں کوئی ہائیر اتھارٹی حکم نہیں دیتی ہم اتنے سینیئر بندے کی انکوائری نہیں کروا سکتے“۔ یہ الفاظ تھے ادارے کی سب سے ”ہائی اتھارٹی“ یعنی وی سی صاحب کے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گھر کا بڑا کہے کہ مجھے گھر کے معاملات چلانے کے لیے پہلے گاؤں کےچوہدری سے اجازت لینی پڑے گی۔ پھر جناب آپ چوہدری صاحب کو ہی سیٹ پر بٹھا کر خود کوئی اور کام کرلیں!

خیر۔ لڑکی نے ایپلیکیشن بھی دی، شنوائی نہ ہونے پر صوبائی محتسب کے پاس بھی درخواست لے کر گئی۔ حیرت اس چیز پر ہے کہ اس معاملے میں اب تک جتنے مرد حضرات کا ذکر آیا ہے ان سب کی بچیاں اسی ادارے سے پڑھی ہیں۔ بے حسی اور بدنیتی کی انتہا دیکھیں، کہ یہ لوگ خود متاثرہ لڑکی کی عمر کی بچیوں کے باپ ہیں مگر اس مافیائی طرز کی مبینہ سوچی سمجھی منظم ٹھرک کے نیٹ ورک کے سرکردہ کی انکوائری کے خیال پر ان کی ٹانگیں لرزتی ہیں۔ پھر اس پر سے ان سینیئر فیکلٹی ممبران کو بھی سلام ہے جو موصوف کی سوسائٹی کے سرپرستوں میں شامل ہیں مگر چُپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔

“لوگ پانامہ کو بھول جائیں گے“، یہ خواجہ آصف نے چند ماہ پہلے کہا تھا۔ آج زمانے نے کسے بھلایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جناب یہ 2018 ہے، اگر پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، ایف سی کالج اور جی سی میں سینیئر فیکلٹی ممبر تحقیقات کے بعد سزا پا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں؟ وی سی صاحب، آپ کو اپنے ضمیر سے زیادہ کوئی اور ہائیر اتھارٹی بھی چاہیے فیصلہ دینے کے لیے؟ اگر اب متاثرہ لڑکی کی درخواست ملنے کے باوجود بھی انکوائری عمل میں نہیں لائی جاتی تو اہل پنجاب کو یہ پیغام جائے گا کہ شریف لوگ اپنی بچیوں کو PMC/FMU نہ بھیجیں، کل کو کچھ ہوا تو وی سی صاحب کو کارروائی کے لیے ہائیر اتھارٹی کے حکم کی ضرورت ہو گی۔ اُتنی دیر بھلے ایک پورا شعبہ جنسی ہراسانی کا اڈہ بن کے چلتا رہے۔

اشاعت مکرر:  Jul 4, 2018


اسی بارے میں

میرا پروفیسر تین سال سے مجھے جنسی ہراساں کر رہا ہے: پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد کی طالبہ

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments