عورت کیوں خاموش رہے؟


دفتر سے واپسی پر بس میں سوار ہوئی تو خوش قسمتی سے ایک نشستت مل گئی، ایک کے بعد ایک سٹاپ پر بس کے رکنے پر مسافروں کا ایک سیلاب بس میں امڈ آ رہا تھا چونکہ بس میں موجود نشستیں آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہیں ، تو سب نشستیں پر ہوچکی تھیں ایسے میں مجبورا بس میں دے دنا دھن سوار ہونے والے لوگوں ملی تو بس کھڑے ہونے کی جگہ۔ جب سے سوار ہوئی تھی تب سے دیکھ رہی تھی کہ ڈرائیور بس بہت تیزی سے چلا رہا تھا باوجود اسکے کہ بس مسافروں سے لدی بس میں مسافروں کی اکثریت نشستوں کے ارد گرد ، آگے پیچھے، دائیں بائیں نیز اوپر نیچے چھوڑ کر ہر جگہ کھڑی تھی، ڈرائیور ہوا کےگھوڑے پر سوار رہا۔ تیز رفتار بس کو جب بریک لگتی تو بیشتر مسافر آپس میں ٹکرانے لگتے ایسے میں تقریبا سب خواتین ( چونکہ میں خواتین والے حصے میں بیٹھی تھی ) ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتیں کہ ” کوئی اس ڈرائیور کو بولے آہستہ بس چلائے، اللہ نہ کرے کوئی حادثہ پیش آجائے، پتا نہیں کیا مسئلہ ہے اس کا، لگتا ہے پہلی مرتبہ بس چلا رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

ایسے میں ڈرائیور نے نہایت زور سے اچانک بریک پر پاؤں دے مارا اور بس بری طرح ہل کر رہ گئی اور اس سارے واقعے کے دوران ایک عمر رسیدہ خاتون جوکہ وضع قطع کے لحاظ سے خاصی رعب دار دکھائی دے رہی تھیں آن کی آن میں اپنے سے آگے کھڑی خاتون سے ٹکرا کر گرتے گرتے بچی اور بس خواتین کی جانب سے بلند کردہ بسم اللہ! بسم اللہ! کے نعروں سے گونج اٹھی اور پھر سے وہ سرگوشیوں والا سلسلہ زور پکڑنے لگا ایسے میں، میں اور میرے ساتھ بیٹھی ایک لڑکی نے ان بڑی عمر خاتون کیلئے اپنے ساتھ ( بڑی مشکل سے ) جگہ بنائی۔ اب صورتحال کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ مزید ایک بھی جھٹکا لگتا تو میں اور میرے ساتھ بیٹھی لڑکی گر پڑتے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے سہارے بیٹھے تھے۔ مجبوری تھی کیونکہ اب کھڑے ہونے کیلئے بھی جگہ نہیں بچی تھی سو ہمیں جیسے تیسے بیٹھنا ہی تھا۔ اس وقت مجھے ایک مشہور زمانہ شعر یاد آیا اور یوں لگا جیسے وہ شعر ایسی ہی کسی نازک صورتحال کیلئے لکھا گیا تھا، شعر کچھ یوں ہے:

ہم تو ڈوبیں گے صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے

یہاں آیا کہانی میں ٹوئسٹ ۔۔!

ایک نہایت باہمت خاتون (کم از کم میری نظر میں وہ بہادر تھیں) جوکہ سب سے اگلی نشست پر براجمان تھی انہوں نے چپ توڑی، اور ڈرائیور کو خوب آڑے ہاتھوں لیا آخر کفر ٹوٹا خدا، خدا کرکے۔ خاتون کے الفاظ کچھ یوں تھے :

” بھائی آپ تھوڑا آہستہ چلا لیں ، پیچھے کھڑی سب خواتین کافی دیر سے بول رہی ہیں، آپ خود دیکھیں بس مسافروں سے بھری پڑی ہے، ہمیں گھر پہیچنے کی اتنی جلدی نہیں، ہم سب خیریت سے گھر جانا چاہتے ہیں آپ پلیز تھوڑا آہستہ چلائیں! یہ سننے کی دیر تھی کہ بس ڈرائیور خاتون سے بحث پر اتر آیا۔ وہ خاتون ایک ہی بات بول رہی تھی کہ میں ہی نہیں بس میں موجود تقریبا سب خواتین کو تیز رفتاری سے پریشانی ہو رہی ہے، سب ہی بول رہی ہیں مگر ان میں سے کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ آپ سے ہمکلام ہوتیں۔ مگر ڈرائیور تو جیسے بحث پر تلا ہوا تھا۔ ایسے میں خاتون کو یہ یقین دلوانے کیلئے کے وہ اکیلی نہیں جو ڈرائیور کی تیز رفتاری سے پریشان ہے بلکہ بس میں موجود باقی خواتین بھی ڈرائیور کے اس فعل کے خلاف سرگوشی مہم پر مامور تھیں وہ پیچھے مڑیتاکہ پیچھے موجود خواتین سےاپنی بات کی گواہی لے سکے۔ ایسے میں ہمارے ساتھ (بڑی مشکل سے بیٹھی ہوئی خاتون نے اپنا چپ کا روزہ توڑا اور خاصی برہمی سے اس حق کی علمبردار خاتون کو جھاڑ دیا اور پنجابی زبان ( جو کہ پنجاب کی مادری زبان ہے ) میں مخاطب ہوئیں ” چپ کر جاؤ تم لوگوں نے بلاوجہ شور ڈالا ہوا ہے، اس کا روز کا کام ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح بس چلانی ہے! “

اس خاتون کے اس رویے پر پہلی والی ( باہمت ) خاتون بولیں ” میں آپ سب کی طرف سے بات کر رہی تھی بجائے آپ میرا ساتھ دیں آپ الٹا مجھے چپ کروا رہی ہیں۔ آپ سب بولیں کیا میں نے کچھ غلط کہا؟ (باقی خواتین سے مخاطب ہوئیں ) اس سے پہلے کے ہم سب میں سے کوئی بھی کچھ کہنے کی جرت کرتا برہم خاتون نے ہماری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا جیسے ہم میں سے کسی نے اسکا ایک عدد گردہ مانگ لیا ہو، بڑے رعب سےبولیں، ” عورت کو کم بولنا چاہیے ، خاموش رہنا چاہیے ! “

یہ سن کر میرے ذہن میں ایک سوال اٹھا کہ بھائی آخر عورت کیوں چپ رہے، کیوں خاموش رہے؟

میرے مطابق اس عورت کو تو اس باہمت خاتون کیساتھ ہم آواز ہونا چاہیے تھا اس لیے نہیں کہ وہ ایک عورت ہے تو اسکو عورت کا ہی ساتھ دینا چاہیے نہیں بالکل نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ( باہمت ) عورت حق پر تھی اس نے تو سب کے لیے آواز اٹھائی تھی اور وہ بھی ایک مرد کے خلاف مردوں کے معاشرے میں رہ کر مرد کے خلاف آواز اٹھانا میرے نزدیک ایک بہت بہادری کا کام ہے۔ اور یقینا یہ سب باتیں وہ عورت خود بھی جانتی تھی پھر کیوں ہمیشہ عورت کو چپ رہنے کی تنبیہہ کی جاتی ہے ، کیوں ہمیشہ عورت کو خاموش کروا دیا جاتا ہے کبھی پیار سے سمجھا کر تو کبھی غصے سے للکار کر۔ کبھی میٹھے میٹھے الفاظ میں تو کبھی جارحانہ انداز میں اور اس صورتحال میں جب ایک عورت کی جانب سے دوسری عورت کو چپ کروا دیا گیا تو مجھے دکھ کے ساتھ ساتھ خاصی حیرانی ہوئی۔
ہمارا تعلق دراصل ایسے قدامت پسند معاشرے سے ہے جہاں مضبوط عورت کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں۔ یہ مرد اصل میں چاہتے ہی نہیں کہ عورت کا اعتماد بحال ہو، وہ مضبوط بنے، انکے مقابلے میں آئے، ترقی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).