ٹیپو سلطان کی اصل تصویر


تاریخ اشاعت: May 6, 2016

سلطان فتح علی خان شہاب، المعروف بہ ٹیپو سلطان، چار مئی کو سرنگا پٹم کی ٹوٹی ہوئی فصیل تلے انگریزوں سے لڑ کر جام شہادت نوش کرنے والا اسلام کا جیالا سپاہی، ہمارا وہ عظیم ہیرو جسے ہم بھلا چکے ہیں۔ کاش یہ تازہ تازہ لبرل ہوا نواز شریف اس عظیم حکمران کے یوم شہادت پر چھٹی کا اعلان ہی کر دیتا، مگر نہ صاحب، یہ تو وہ حکمران ہیں کہ اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر حضرت اقبال رحمت اللہ علیہ کے یوم وفات کی چھٹی ختم کر دیتے ہیں اور قوم کے لیے اس رنج و الم والے دن بھی کہتے ہیں کہ کام کرو، تو ان کو ٹیپو سلطان کے یوم شہادت کی چھٹی کہاں ہضم ہو گی۔ انہیں مغربی آقاؤں سے لڑتے ہوئے تو سلطان شہید ہوئے تھے جو اب پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہمارے مغرب زدہ حکمران تو وطن کے اس بطل عظیم کا اصل نام تک اپنی قوم کے نوجوانوں کو نہیں بتاتے ہیں تو چھٹی کہاں دیں گے۔

شیر میسور سلطان فتح علی خان شہاب ٹیپو سلطان نے 1782 میں تخت سنبھالا اور 1799 میں جام شہادت نوش کیا۔ وہ محض پندرہ سال کی عمر سے وہ فوج کی کمان پا کر فتوحات حاصل کرنے لگے۔ ٹیپو سلطان کو صنعت و حرفت اور سائنس سے بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ راکٹ کا فوجی استعمال کیا اور راکٹ کے استعمال کے لیے ایک ہدایاتی کتاب فتح المجاہدین بھی لکھی۔

وہ ہندوستان کے پہلے دیسی حکمران تھے جنہوں نے یہ گر پایا کہ قوموں کی طاقت کا راز صنعتی پیداوار میں ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سلطنت میں کئی فیکٹریاں لگوائیں۔

انگریزوں نے بعد از مرگ ان کو بدنام کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ تاریخ میں انگریزوں نے اپنے صرف دو دشمنوں سے اتنا خوف کھایا اور اتنی نفرت کی کہ ان کے نام پر اپنے کتوں کے نام رکھے، ایک تھا نیپولین بوناپارٹ اور دوسرے تھے ٹیپو شہید۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے ان کی انگوٹھی اور تلوار کو ان کی لاش سے ایک ٹرافی کے طور پر لوٹا اور بدنام کرنے کی اسی مہم کے تحت انگریزوں نے اس لوٹی ہوئی انگوٹھی پر ‘رام’ کندہ کروا دیا اور مشہور کر دیا کہ یہ ٹیپو سلطان نے خود لکھوایا ہوا تھا حالانکہ ٹیپو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ان کی بت پرست ہندووں سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

انگریزوں کی پھیلائی ہوئی ٹیپو سلطان کی گمراہ کن تصویر

بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ٹیپو سلطان کو مزید بدنام کرنے کے لیے ان کی کوئی دستاویزات وغیرہ بھی دریافت کر لی گئیں جن میں یہ لکھا ہوا تھا کہ وہ مندروں اور پجاریوں کو بیت المال سے کافی روپیہ پیسہ دیتے تھے تاکہ ہندو وہاں پوجا پاٹھ کریں، حالانکہ سلطان نے اپنی مملکت خداداد میں شرعی قوانین نافذ کیے ہوئے تھے اور ہندووں سے تو انہیں اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے بہت سے شہروں کے ہندو ناموں کی بجائے ان کے اسلامی نام رکھ دیے۔ مثلاً منگلور کو جلال آباد، بیپور کو سلطان پٹم، گوٹی کو فیض حصار، ڈنڈیگل کو خالق آباد، رتناگری کو مصطفی آباد، اور کوزیکوڈے کو اسلام آباد کا نام دیا۔ یعنی وہ برصغیر کے وہ پہلے مبارک حکمران تھے جنہوں نے اسلام آباد نام کے شہر پر حکمرانی کی۔

لیکن یہ سب پروپیگنڈا اس ظلم کے مقابلے میں بہت کم ہے جو ہم سب کے ذہنوں میں ٹیپو شہید کی شخصیت کے بارے میں بنا دیا گیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنے ملک میں شریعت نافذ کر دینے والا شخص خود پر شریعت نافذ نہ کر سکے؟

ہم ٹیپو سلطان کی جو تصویر دیکھتے ہیں، اس میں ایک ایسا لحیم شحیم شخص دکھائی دیتا ہے جو کہ داڑھی منڈائے، سر گھٹوائے، ولایتی انداز کی مونچھوں کو بل دے کر ہیرے جواہرات پہن کر بیٹھا ہے۔ قارئین، یقین مانیے کہ ہمیں بھی یہی لگتا تھا کہ ٹیپو سلطان ایسے ہی ہوں گے، لیکن خوش قسمتی سے سوشل میڈیا پر حقیقت سامنے آ گئی ہے۔ اب ٹیپو سلطان کی کیمرے سے کھینچی گئی اصل تصویر سامنے آ چکی ہے جو کہ لندن کے برٹش میوزیم سے دریافت ہوئی ہے۔

برٹش میوزیم سے برآمد ہونے والی ٹیپو سلطان کی اصلی تصویر

تصویر سے صاف واضح ہے کہ یہ جفاکش حکمران دبلا پتلا سا تھا، داڑھی رکھتا تھا، سر پر تاج کی بجائے سادہ سا کپڑا باندھتا تھا، لباس سے سادگی و درویشی ٹپکتی تھی، اور تلوار سے کسی وقت بھی ہاتھ نہ ہٹتا تھا۔ انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی اصل شخصیت چھپانے کی بہت کوشش کی، مگر ان میں سے کسی کی غفلت کے باعث یہ اصل تصویر برٹش میوزیم میں کسی صالح شخص نے دیکھ لی۔ شرعی حلیہ دیکھ کر اسے تصویر میں دلچسپی ہوئی تو اس کے نیچے لکھی مٹی مٹی سی دھندلی سی عبارت پڑھنے کی کوشش کی۔ ہزار کوشش کے بعد اس نے عبارت پڑھی تو وہ دنگ رہ گیا اس نے تصویر کے نیچے لکھا دیکھا کہ یہ امیر ٹیپو ٹپ کی تصویر ہے۔ شاید تحقیر کی خاطر فوٹوگرافر نے ٹیپو کے آگے نام بگاڑ کر ٹپ لکھ دیا ہو گا۔

ہم نے یہ تصویر مختلف الخیال احباب کو دکھائی تو صالح ذہن رکھنے والوں نے بغیر کسی توقف کے اس بات کی گواہی دی کہ یہی سلطان شہید کی اصل تصویر ہو گی کہ ان کی مجاہدانہ شخصیت سے یہی میل کھاتی ہے۔ لیکن انگریزوں کے غلام لبرل طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگے۔ ایک نے کہا کہ ٹیپو سلطان کی شہادت 1799 میں ہو گئی تھی، کیمرے کی پہلی محفوظ تصویر جوزف نیپسے نامی کسی شخص کی ہے جو کہ 1826 کے قریب کی ہے۔ ان گمراہ معترضین کو دو باتیں نہیں پتہ ہیں۔ ایک یہ کہ 1799 اور 1826 میں محض ستائیس سال کا فرق ہے، اور ٹیپو شہید کی یہ تصویر ایک کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹ تھی، جسے برطانوی حکومت نے چھپانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ کلاسیفائیڈ ڈاکیومینٹس کے بارے میں یہ اصول ہے کہ وہ تیس سے ستر سال کے بعد عوام کے سامنے لائی جاتی ہیں۔ بعض دستاویزات زیادہ حساس سمجھی جائیں تو ان کی مدت زیادہ بھِی ہو سکتی ہے۔ اب یہ حساس ترین تصویر منظر عام پر آ گئی ہے تو سب کو مان لینا چاہیے کہ کیمرے کی پہلی محفوظ تصویر ٹیپو شہید ہی کی ہے جو کہ 1799 یا اس سے پہلے کی ہے۔

برٹش میوزیم میں موجود ٹیپو سلطان کے بڑھاپے کی پینٹنگ

دوسری بات یہ ہے کہ ہماری پرائمری کا بچہ بھی جانتا ہے کہ کیمرہ عظیم مسلمان سائنسدان ابن الہیثم کی ایجاد ہے جو کہ 965 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1040 عیسوی میں قاہرہ میں وفات پائی۔ یعنی کیمرہ ٹیپو شہید کی وفات سے آٹھ سو سال پہلے کی ایجاد ہے۔ اس پر یہ اعتراض کہ ٹیپو شہید کی کیمرے سے تصویر نہیں لی جا سکتی ہے، بچگانہ حد تک مضحکہ خیز ہے۔

کچھ لبرل نابغے یہ خبر لائے کہ نہیں بھائی، یہ تو کسی افریقی سواحلی زنجیباری بنام حمد بن محمد بن سعید المرجبی کی تصویر ہے جو کہ ہاتھی دانت اور غلاموں کی تجارت کرتا تھا۔ اسے سلطان زنجیبار نے کانگو کا گورنر بھی مقرر کر دیا تھا۔ اس کی بندوقوں سے ٹیپو ٹپ کی آواز آتی تھی، جس پر مقامی افریقیوں نے اس کا نام ٹیپو ٹپ رکھ دیا۔ جب کوئی لبرل شخص کٹ حجتی پر اتر آئے تو ایسی ہی دلیلیں دیتا ہے۔ یہ ٹپ ٹپ کی آوازیں بندوق چلنے سے نہیں، مصباح الحق کی بیٹنگ سے آتی ہیں۔ ان لبرلوں نے کبھی جہاد میں حصہ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ بندوق تو دھائیں دھائیں کرتی ہے، ٹپ ٹپ نہیں کرتی۔

بہرحال، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چار مئی کو ٹیپو سلطان کے یوم شہادت کی چھٹی کا اعلان کرے، اور نصابی کتابوں میں ٹیپو سلطان کی یہ اصل تصویر شامل کی جائے۔ اس کے علاوہ حکومتی اشتہاروں میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ شیر میسور ٹیپو سلطان کی یہ نو دریافت شدہ تصویر بھی استعمال کی جائے، کہ پاکستان نے مملکت خداداد کا نام ٹیپو شہید کی سلطنت سے ہی مستعار لیا ہے اور ہمیں ٹیپو سلطان کا یہ احسان تسلیم کرنا چاہیے۔
May 6, 2016


ٹیپو سلطان کی شخصیت پر ایک مضمون: ٹیپو سلطان، شیر، گیدڑ اور ہم

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
26 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments