آبی معیشت، مشکل فیصلے کون کرے گا


گزشتہ سردیوں کے دوران شمالی علاقوں میں برف باری معمول سے کم رہی۔ پنجاب اور سندھ کے میدانوں میں، مئی کے اوائل سے ہی شدید گرمی شروع ہوئی اور بارش بھی کم برسی۔ دریائوں میں پانی کی آمد معمول سے کم ہونے پر منگلا اور تربیلا میں پانی کی سطح نیچے آگئی۔ نہروں میں پانی کم ہوا تو کسان پریشان اور زرعی پیداوار متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔

اِن حالات میں اہلِ دانش آبی مسائل پر غور اور اِن کا حل تلاش کر رہے ہیں۔ کسی کا خیال ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم بنانے میں سستی ہو رہی ہے۔ ایک طبقہ کالا باغ ڈیم پر عدم اتفاق کو ہر خرابی کی جڑ سمجھتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی سنگین قومی بحران کا نوٹس لے رکھا ہے۔ ٹیلی وژن اور اخبارات کے علاوہ سوشل میڈیا میں آبی مسائل زیر بحث ہیں۔

اِس بحث میں ایک مضبوط رائے کے حامل افراد کا خیال ہے کہ ذخائر کو وسعت دینے کے ساتھ پانی کے زرعی استعمال میں بچت کرنے سے آبی مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال دریائوں سے اوسطاً ایک سو ملین ایکڑ فٹ پانی نہری نظام میں داخل ہوتا ہے۔ اِس میں سے چالیس ملین ایکڑ فٹ پانی کھیت تک نہیں پہنچتا۔ پانچ ملین ایکڑ فٹ پانی بخارات کی صورت، فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے اور پینتیس ملین ایکڑ فٹ پانی زمین جذب کر لیتی ہے۔

پینتیس میں سے پندرہ ملین ایکڑ فٹ پانی اُن علاقوں میں زیر زمین چلا جاتا ہے جہاں آبی ذخیرہ قابل استعمال ہے۔ یہ پانی ضائع نہیں ہوتا۔ البتہ بیس ملین ایکڑ فٹ پانی ایسے علاقوں میں جذب ہو کر ضائع ہوتا ہے جہاں زیرِ زمین پانی کھارا ہے۔

اگر نہروں کی سطح پختہ ہو تو بیس ملین ایکڑ فٹ میں سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی کی بچت ہو سکتی ہے۔ پانی کی بچت کا معاملہ صرف دس ملین ایکڑ فٹ پر ختم نہیں ہوتا۔ آب پاشی کے بہتر طریقوں سے کھیت تک پہنچنے والے ساٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی کا تقریباً نصف حصہ بچ سکتا ہے۔

قاری یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ اِس ممکنہ بچت کے لئے منصوبہ بندی کیوں نہیں ہو رہی۔ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں نہری نظام کے معاشی پہلو کا جائزہ لینا ہو گا۔ انگریز حکومت نے ہندوستان میں آب پاشی کا نظام متعارف کروایا۔ دریائوں پر بیراج بنائے اور نہروں کے ذریعے پانی کھیت تک پہنچایا۔ جو سرمایہ کاری ہوئی اُس کی واپسی کے لئے، ہندوستان میں آبیانہ وصول ہونے لگا۔

یہ پانی کی قیمت نہیں تھی۔ صرف سرمایہ کاری کی واپسی اور نظام کو صحیح حالت میں قائم رکھنے کی لاگت تھی۔ رقم کی واپسی سے مزید سرمایہ کاری ممکن ہوتی رہی۔ 1937ء کے بعد انتظامی اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل ہوئے تو آبیانے کی وصولی میں خرابی آئی۔

سکھر بیراج پر آنے والی لاگت کا بوجھ مرکزی حکومت نے اُٹھایا۔ سندھ حکومت نے یہ رقم مرکز کو واپس کرنا تھی۔ سیاسی حکومت کی آمد پر قرض کی واپسی میں کمی آئی تو مرکزی حکومت نے قسطوں کی ادائیگی نرم کر دی۔ صوبائی حکومت پر زور دیا کہ اُسے یہ رقم واپس کرنا ہو گی۔

اِس مثال سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ آب پاشی کا نظام مضبوط بنیادوں پر اُستوار کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی واپسی ضروری سمجھی گئی۔

1967ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ عالمی بینک اور دوسرے ملکوں کی مدد سے مغربی پاکستان میں پانچ نئے بیراج اور نو لنک کینال بنائی گئیں۔ آج کل کی شرح تبادلہ کے مطابق، تقریباً 26بلین ڈالر خرچ ہوئے مگر آبیانے کی شرح میں اضافہ نہیں کیا گیا۔

کسان سے وصول ہونے والا آبیانہ سہولت کی فراہمی پر اُٹھنے والی لاگت سے منسلک نہ رہا بلکہ صرف نہری نظام کو شکست و ریخت سے بچانے کے لئے وصول ہونے لگا۔ آبیانہ کی شرح کا تعین اور وصولی صوبائی ذمہ داری ہے۔ بدقسمتی سے صوبائی حکومتیں سیاسی مصلحت کا شکار ہو گئیں۔

پنجاب میں 2003ء کے دوران ربیع کی فصل کے لئے پچاس روپے فی ایکڑ اور خریف کی فصل کے لئے پچاسی روپے فی ایکڑ شرح مقرر ہوئی۔ پندرہ سال گزر چکے ہیں، آج تک اِس شرح میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ دوسرے صوبوں میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ مزید بدقسمتی ہے کہ واجب الادا رقم کم ہونے کے باوجود، اِس کا ایک تہائی حصہ ہی وصول ہوتا ہے۔

آبی معیشت کے حوالے سے ہم یہ اُصول بھول چکے ہیں کہ سہولت پر آنے والی لاگت وصول ہو تو سرمایہ کاری کا عمل جاری رہتا ہے۔ حکومت سڑک بناتی ہے تو گاڑیوں پر ٹیکس لگتا ہے۔ صارفین کو بجلی اور گیس فراہم ہو تو لاگت وصول کی جاتی ہے۔

بجلی اور گیس کے استعمال میں نرخ کی تخصیص ہے مگر پانی کے استعمال میں نہیں۔ ہزاروں ایکڑ کے مالک سے آبیانہ اُسی شرح پر وصول ہوتا ہے جو ایک ایکڑ کا مالک ادا کرتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بجلی یا گیس کی طرح پانی کی سپلائی معطل نہیں ہوتی۔

نہری نظام کوقائم اور رواں رکھنے پر آنے والی لاگت صنعت یا تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس سے پوری ہوتی ہے۔ منگلا اور تربیلا میں پانی کے ذخائر کو قائم و دائم رکھنے کے لئے جو اخراجات اُٹھتے ہیں، وہ بھی بجلی کے صارفین ادا کرتے ہیں۔

ملکی معیشت کے ٹیکس سسٹم کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ہماری قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ بیس فیصد سے زائد ہے۔ اِس کے برعکس ملکی معیشت سے اکٹھے ہونے والے ٹیکس اور محصولات میں زراعت کا حصہ صرف ایک فیصد کے قریب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آبی معیشت میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ نئے ذخائر تعمیر کرنا ہوں یا نہروں کو پختہ کرنے سے پانی کی بچت کا انتظام مقصود ہو، سرمایہ کاری پر اُٹھنے والی لاگت وصول نہیں ہو سکتی۔ رقم کا انتظام صنعتی شعبے یا دُوسرے ذرائع سے وصول ہونے والے محصولات سے ہی ممکن ہے۔ آبی معیشت کا مروجہ نظام ہماری زراعت کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے صرف وہ منصوبے قابلِ عمل نظر آتے ہیں جن میں بجلی پیدا کرنے کی سہولت ہو۔ ماضی میں مرکزی حکومت نے آبی ذخائر کے لئے دو منصوبے، خان پور اور حب ڈیم تعمیر کئے۔ اِن پر اُٹھنے والی لاگت صوبائی حکومتوں نے مرکز کو واپس کرنا تھی۔ صوبائی حکومتیں پانی تو استعمال کرتی ہیں مگر رقم کی واپسی اُن کے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ زمیندار سے پانی کی لاگت وصول نہیں کرتیں۔ زرعی معیشت میں پانی تقریباً مفت ملتا ہے۔

اِن حالات میں آب پاشی کا نظام زبوں حالی کا شکار رہے گا۔ پانی کی معیشت کو صحیح خطوط پر استوار کرنا ہمارے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اُس کے لئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم عام صارفین پر ٹیلی فون کے بل کو بھاری کر دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل استعمال کرنے والے کے لئے پٹرول کی قیمت بڑھتی رہتی ہے مگر لاکھوں کا باغ فروخت کرنے والے پر ٹیکس کی معافی ہے۔

اگر پانی کی معیشت کو دُرست خطوط پر اُستوار نہ کیا گیا تو نہ کسان پانی کی بچت پر توجہ دیں گے، نہ سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی اور نہ ہمارے آبی مسائل میں کمی آئے گی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood