جب پرویز مشرف کو فیڈرل سیکرٹری بندر سمجھ بیٹھے


یادش بخیر، آج نورالہدی شاہ کے لکھے دو شیروں کا ذکر چھڑا تو مجھے بھی اپنا سنایا ایک شیر یاد آ گیا۔ کمال یہ ہے کہ اس شیر کا تعلق بھی پاکستان ٹیلی ویژن سے جڑا ہے اور اس کی کچھار میں بھی ایک آمر کی بو رچی ہے۔

مشرف صاحب کا دور عروج تھا۔ نواز شریف جلاوطن ہو چکے تھے۔ روشن خیالی کا نیا نیا چلن تھا پر دیو استبداد اسلامی قبا پہنے یا لبرلزم کی خلعت، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لباس اتار لیجیے، اندر سے عفریت ہی ملے گا پر یہ عفریت ایسا ہے جو ذرا ذرا سی بات پر لرز جاتا ہے۔ اس کے اردگرد ہمہ وقت اس کی عظمت کے راگ گانے والے مصاحب اس سے بھی زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہر وقت ان کی خوفزدہ نظریں خطرے کے نشان ڈھونڈتی ہیں۔ ناک پھلائے وہ سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی نامانوس بو تو ہوا کے دوش وارد ہونے کو تو نہیں۔ ان کے کان غلام گردش کی ہر آہٹ پر لگے رہتے ہیں۔ شہ کے خوش کرنے کو یہ رائی کا پہاڑ بنانے میں بھی دیر نہیں کرتے اور پہاڑ کو اوجھل کرنے کے منتر بھی ان کی نوک زبان پر دھرے رہتے ہیں۔

میں پی ٹی وی پر صبح کی نشریات کی میزبانی کیا کرتا تھا۔ دو ڈھائی گھنٹے کی ٹرانسمیشن براہ راست ہوتی تھی اس لیے ہر لفظ بہت سوچ سمجھ کر بولا جاتا تھا کہ اس کمان سے نکلے ہوئے تیر کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ نشریات میں میرے ساتھ ایک شریک خاتون میزبان اور عموماً کچھ مہمان موجود ہوتے تھے۔ ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی بات چیت چلتی تھی پر پروگرام کا کوئی سکرپٹ نہیں تھا اس لیے گفتگو کا بھی کوئی خاص طریق طے نہیں تھا۔ ہم روز ایک مختلف انداز میں پروگرام کی بنت کرتے۔ گفتگو کے ساتھ ساتھ بیچ میں مختلف پروگرام چلتے رہتے۔ کبھی ایک پروگرام سے دوسرے کے بیچ وقفہ زیادہ ہوتا تو ہم پروگرام کے تعارف سے ہٹ کر اپنی گپ شپ میں لگ جاتے۔ اس سے ایک غیر روایتی تاثر بنتا جو ہمارے ناظرین کو بھی پسند تھا اور پروگرام کے پیش کار کو بھی۔

اس دن بھی ایک دستاویزی فلم دکھانے سے پہلے ہمارے پاس کوئی دس منٹ بالکل فارغ تھے تو بات چیت اپنی رو میں بہہ نکلی۔ پتہ نہیں موضوع گفتگو کیا تھا پر کسی مناسبت سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ لطیفہ کوئی ایسا کمال نہیں تھا پر اس کے بعد جو ہوا وہ ایک کمال یاد کی صورت آج بھی میرے ساتھ ہے۔ پہلے لطیفہ سن لیجیے پھر آگے کا قصہ

ایک تھا جنگل اور ایک تھا اس کا بادشاہ، ایک شیر۔ ایک دن ایک شکاری کی گولی بہانہ بنی اور شیر عالم فانی سے رخصت ہو گیا۔ جنگل کے بڑے بوڑھے مل بیٹھے کہ جنگل کی بادشاہی کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے۔ خوب بحث وتمحیص ہوئی پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ بالآخر قرعہ ڈالا گیا تو وہ بندر کے نام نکل آیا۔ بندر پھولا نہ سمایا، پر تھا تو بندر ہی تو اس کی بادشاہی میں جنگل کے معاملات بگڑتے چلے گئے۔

آخر ایک دن جانوروں نے ایک وفد بنایا اور بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مسائل کا پلندہ پیش کیا اور بادشاہ سے دست بستہ درخواست کی کہ کوئی حل نکالا جائے۔ بندر نے انتہائی غور سے ساری بات سنی پھر ایک لمبی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گیا۔ وہاں سے دوسرے درخت پر کودا۔ کچھ دیر ایک شاخ سے لٹکتا رہا پھر تیسرے درخت پر جست لگا دی۔ پھر اگلا درخت، پھر اس سے اگلا۔ ایک درخت پر چڑھتا پھر اس سے کودتا ہوا اگلے درخت پر پہنچتا۔ کبھی دم سے لٹکتا، کبھی بازوؤں پر جھولتا۔ پھر نیچے اترتا پر رکے بغیر اس سے اگلے درخت پر چڑھ جاتا۔ بڑی دیر یہ تماشہ چلتا رہا۔

جانوروں کا وفد پہلے تو حیران ہوا، پھر پریشان اور پھر بیزار ہو گیا۔ جب آدھ گھنٹہ یہی اچھل پھاند چلتی رہی تو لومڑی نے چلا کر پوچھا۔
”بادشاہ سلامت، یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے مسئلے ہیں۔ سنجیدہ ہیں۔ جنگل تباہ ہو رہا ہے۔ کوئی ان کے حل کے لیے بھاگ دوڑ کیجیے“
بندر نے اپنی اگلی چھلانگ موقوف کی۔ تنک کر بی لومڑی کی طرف دیکھا اور خوخیا کر کہا
”وہی تو کر رہا ہوں“

لطیفہ ختم ہوا۔ شریک میزبان اخلاقاً یا مروتاً ہنس دی۔ ایک آدھ بات اور ہوئی اور پھر دستاویزی فلم کے مختصر تعارف کے بعد فلم شروع ہو گئی۔ ادھر سکرین پر پہلا سین گیا، ادھر ائیر پیس میں پروگرام کے پیشکار یعنی پروڈیوسر صاحب کی آواز آئی
”حاشر صاحب۔ ذرا کنٹرول روم میں تشریف لائیے“

اسی دوران ایک ہدایت میری شریک میزبان کو بھی جاری ہو گئی تھی کہ وہ اسٹوڈیو میں ہی بیٹھی رہے۔ میں تھوڑا سا متعجب ہوا پر استفسار کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ملحقہ کنٹرول روم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ سب کی ہوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔ ہمارے پروڈیوسر قیصر نقی امام تھے جو ایک انتہائی نستعلیق آدمی تھے۔ ہماری دوستی تھی اور ایسے وقت ہلکا پھلکا مذاق چلتا رہتا تھا پر اس وقت ان کے چہرے پر شدید گمبھیرتا تھی۔

”یار حاشر، بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے“
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے
”کیسی گڑبڑ؟ “ اب استفسار کا وقت تھا
”آپ کو یہ لطیفہ نہیں سنانا چاہیے تھا“
اب میں باقاعدہ حیران تھا۔

”کیوں، لطیفے میں ایسی کیا بات تھی“ مجھے حقیقتاً کنٹرول روم میں پھیلی قیامت صغری اور لطیفے کے بیچ کی کڑی نہیں مل رہی تھی۔
”آپ نے لطیفے میں شیر کی حکمرانی کا ذکر کیا پھر اس کے مرنے کے بعد بندر کی حکمرانی کا۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ شیر میاں نواز شریف کا انتخابی نشان تھا۔ اب ذرا سوچیں۔ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے“

مجھے یاد ہے کہ میں اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکا تھا

”یعنی جب بھی شیر کا ذکر آئے گا تو ہمیں میاں صاحب یاد آئیں گے۔ یہ بہت دور کی کوڑی ہے نقی۔ یعنی بندر ہمارے موجودہ صدر ہوئے۔ حد ہے۔ بھائی، میرے ذہن میں تو دور دور تک کوئی سیاسی تشبیہہ نہیں تھی۔ آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں“

نقی کے چہرے پر ابھی بھی لکیریں کھنچی تھیں۔

”یار، یہ سرکاری ٹی وی ہے۔ یہاں ایک ایک لفظ کی مانیٹرنگ ہے اور یہ کوڑی میں نہیں لایا یہ براہ راست چیئرمین آفس سے بھیجی گئی ہے۔ ادھر آپ کی بات ختم ہوئی ادھر چیئرمین آفس سے فون آ گیا۔ چیئرمین صاحب کے کہنے پر ہی آپ کو اسٹوڈیو سے نکال کر یہاں بٹھایا ہے۔ ایم ڈی آفس کو بھی خبردار کر دیا گیا ہے۔ ابھی شاید چیئرمین صاحب ایوان صدر بات کر رہے ہیں۔ اگر وہاں کسی نے نوٹس کر لیا ہوا تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی“۔

چیئرمین کی کرسی اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات سید انور محمود صاحب کے پاس تھی اور ان کی شہرت باس کے چہیتے کی تھی۔ حضرت اپنی نوکری حلال کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے کئی مظاہرے کر چکے تھے۔ ہم سب ان کی شہرت سے آگاہ تھے۔

اس بات کے دوران ہی کنٹرول روم میں دوبارہ فون بجنے شروع ہوگئے۔ ایک نقی نے اٹھایا۔ ایک پر ایسوسی ایٹ پروڈیوسر بات کرنا شروع ہو گئے۔ ایک صاحب بھاگے بھاگے کنٹرول روم سے نکلے کہ ملحقہ کمرے میں بھی گھنٹی بج رہی تھی۔ پتہ لگا کہ بیک وقت چئیرمین، ایم ڈی اور ڈائریکٹر پروگرامز اس تباہ کن لطیفے کے متاثرین میں شامل ہیں اور ہر ایک آگ پر اپنی اپنی چونچ میں پانی بھر کر ڈالنے میں مصروف ہے۔ میں اپنی کرسی پر جھولتا ہوا یہ تماشا دیکھنے میں مصروف تھا۔ فون بند ہواتو میں نے پوچھا

”کیا ہوا“
نقی کے چہرے پر تفکر میں کچھ تھوڑی سی کمی تھی۔

”لگتا ہے ایوان صدر میں کسی کو پتہ نہیں لگا۔ انور صاحب کا ڈائریکٹ فون تھا۔ لیکن ایک دفعہ اور وہ تصدیق کر لیں، پھر بتاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ سے بھی بات کریں“
”اور میں ان سے کیا بات کروں گا“ مجھے حقیقتاً اس قسم کے ڈرامہ جات کا کوئی اندازہ نہیں تھا
”یار۔ انہیں بس بتا دینا کہ آپ کا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا نہ ہی آپ کوئی سیاسی آدمی ہیں۔ بس اپولوجائز کر لینا۔ (معافی مانگ لینا)۔ امید ہے بات ختم ہو جائے گی“

میں نے کرسی گھسیٹ کر تھوڑی آگے کی۔ ذرا سا جھکا اور نقی کی عینک کے پیچھے چھپی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر میں نے لفظ تولنے شروع کیے

”دیکھیے نقی، یہ سچ ہے کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں، مجھے میاں صاحب سے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی لگاؤ بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ لطیفہ سناتے وقت کہیں دور دور تک میرے ذہن میں کوئی سیاسی تلمیح تھی، نہ کوئی اشارہ تھا اور نہ ہی کوئی کنایہ۔ پر اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ اعترافات مجھے سیکرٹری صاحب کو خوش کرنے کے لیے ایک معافی کی گلوری میں لپیٹ کر پیش کرنے کی ضرورت ہے تو یہ تو میری جوتی بھی نہیں کرنے لگی۔ اور نہ ہی اب میں انور صاحب سے بات کروں گا کیونکہ یہ بات کرنے سے مجھے زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑے گا کہ میری میزبانی لے لی جائے گی جو کہ ویسے ہی میں شوقیہ کرتا ہوں اس لیے میرے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن اس کنٹرول روم میں موجود لوگوں کے لیے مسئلہ بڑھ جائے گا۔ “

نقی کو میرے اکھڑ پن کا اندازہ تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ میرے قصے سن چکا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ایک تقریبا مطلق العنان سیکرٹری سے بدتمیزی کا نزلہ مجھ پر تو کیا گرتا کہ میں سرکاری ملازم نہیں تھا پر صبح کی نشریات سے جڑے تیکنیکی عملے کے لیے مصیبت کھڑی ہو جانی تھی۔

”آپ کا جو دل کرے، بہانہ کر دیجیے۔ لیکن مجھے انور صاحب سے بات کرنے پر مجبور نہ کیجیے گا۔ آپ جانتے ہیں اسی میں سب کی بہتری ہے۔ آپ شوق سے یہ کہہ دیجیے کہ مجھے میزبانی سے آپ نے ہٹا دیا ہے۔ میری طرف سے آپ مجھے مستعفی سمجھیے“۔

میں نے بات مکمل کی اور کرسی پیچھے کر کے پھر سے اس پر جھولنا شروع کر دیا۔ نقی خاموش رہا۔ یہ وقت اس جیسے عالم اور نستعلیق شخص کے لیے بھی گزارنا مشکل تھا، مجھے اندازہ ہو رہا تھا۔ ان لمحوں میں مجھے برسوں پہلے اپنے اس فیصلے کی افادیت کا اندازہ ہوا جب میں نے سرکاری نوکری سے ہمیشہ کے گریز کی سوچی تھی۔

اس کے کچھ وقت بعد فون دوبارہ آیا۔ نقی نے سید انور محمود سے کیا بات کی، کیا نہیں۔ مجھے نہیں معلوم۔ وہ مجھ سے بات کر کے مجھے ڈانٹ پلانے کے متمنی تھے یا نہیں، یہ میں نے کبھی نقی سے نہیں پوچھا۔ یہ بہرحال معلوم ہو گیا کہ ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے کانوں پر صور اسرافیل سے کچھ کم اس لطیفے کی صدا اس دن اتفاقاً نہیں پہنچ پائی۔ باقیوں نے بھی شکر ادا کیا کہ گناہ عظیم پر پردہ پڑا رہ گیا۔ کچھ لوگوں کے کان کھینچ دیے گئے۔ آیندہ کے لیے احتیاط کے وعدے ہوئے، نظر رکھنے کی قسمیں کھائی گئیں اور یوں یہ بلا ٹلی۔ اس کے بعد بھی میں کچھ عرصہ صبح کی نشریات کرتا رہا پھر ایک دن بیزار ہو کر میں نے اسے ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔

تو دوستو، سبق یہ ملا کہ شاہ کی قوت برداشت ایک لطیفے کی بھی مار نہیں ہوتی اور شاہ کے مصاحب میل دور سے سونگھنے کی حس رکھتے ہیں۔ اب یہ آپ سوچیے کہ اور کون سے جاندار ایسی قوت شامہ کے مالک ہوتے ہیں۔


اسی بارے میں

ایک شیر ضیاء۔۔۔ دوسرا کون؟

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad