نواز شریف کے پاس اب کیا راستہ ہے؟


اب تو لگتا ہے منیر نیازی نے نظم ’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘ نواز شریف کے لیے لکھی تھی۔ عدالت کچھوے کی رفتار سے چلتی ہے اور سیاست خرگوش کی طرح پھدکتی اچھلتی۔ جو خرگوش ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار نہ ہو وہ دوڑ جیت جاتا ہے مگر ایسا واقعی ہو جائے تو پھر نسل در نسل کچھوے اور خرگوش کی کہانی کون پڑھے۔

غلط وقت پر غلط فیصلہ تو معاف کیا جا سکتا ہے مگر درست وقت پر غلط فیصلے کا کوئی مداوا نہیں۔ کامیڈی اور سیاست میں سارا کھیل ٹائمنگ کا ہے۔ ایک بھی غیرضروری لمحہ لطیفے کو کثیفہ اور ایک دن کی سستی سیاستدان کو برسوں کی مشقت میں دھکیل سکتی ہے۔

سیاست کا سستی سے وہی رشتہ ہے جو ریل کے پہیے کا پنکچر سے۔

میاں صاحب کو پہلا سنہری موقع پاناما گیٹ کے منظرِ عام پر آتے ہی ملا۔ اگر پارلیمنٹ میں اپنی بےگناہی اور پاناما سے اپنی لاتعلقی ثابت کرنے کے بجائے اسی تقریر میں میاں صاحب کہہ دیتے کہ میں جس عہدے پر تیسری بار منتخب ہوا اس کے بعد عوامی اعتماد کا تقاضا ہے کہ میری ذات پر ذرا سا بھی چھینٹا پڑے تو مجھے اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ میں دوبارہ آؤں گا مگر اس وقت جب خود کو بےگناہ ثابت کر دوں گا۔ ان چند جملوں کے ساتھ میاں صاحب کے شیئرز سیاسی سٹاک ایکسچینج کی چھت پھاڑ سکتے تھے مگر یہ ہو نہ سکا اور ان کے حواری کان میں پھونکتے رہے میاں صاحب دب کے رکھو۔

دوسرا موقع تب آیا جب سپریم کورٹ نے پاناما معاملے کو قابلِ سماعت سمجھنے سے انکار کر کے سیاستدانوں کو موقع دیا کہ وہ اپنے کپڑے سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر دھونے کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر دھوئیں۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت بھی راضی تھی کہ ایک پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کی چھان بین کر کے کسی نتیجے پر پہنچ جائے مگر میاں صاحب نے یکطرفہ تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کر دیا جسے اپوزیشن نے مسترد کر دیا اور اپوزیشن کے فارمولے کو میاں صاحب اور ہم نواؤں نے مسترد کر دیا اور پھر عمران خان کے لاک ڈاؤن کی دھمکی نے سپریم کورٹ کو بادلِ نخواستہ اس معاملے کی شنوائی پر مجبور کر دیا۔

مگر اس معاملے کو ٹیکنیکل اور قانونی طریقے سے پیشہ ورانہ انداز میں کمرہِ عدالت تک محدود رکھنے کے بجائے ایک متوازی عدالت سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر لگا لی گئی اور یوں عدالت نواز و عدالت مخالف گروہ ابھر کے سامنے آ گئے اور میڈیا کی مہربانی سے پاناما ایک دلدل کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ پھر اس دلدل میں طعن و تشنیع و گالیوں اور عدلیہ سے دوبدو کے جھاڑ جھنکار اگتے چلے گئے۔

میاں صاحب جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کرتے رہے اور اس کے سامنے پیش بھی ہوتے رہے، عدالتی فیصلہ قبول بھی نہیں کیا اور عملاً سبکدوشی کے سبب قبول بھی کر لیا۔ نیب عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور سو سے زائد بار پیش بھی ہوتے رہے اور جلسوں میں عوام کی عدالت سے بھی پوچھتے رہے مجھے کیوں نکالا؟

ظاہر ہے میاں صاحب محض سیاسی شخصیت نہیں ایک شوہر اور والد بھی ہیں لیکن سیاستداں کا امتحان یہی تو ہے کہ وہ کیسے اپنے نجی معاملات اور رشتے بھی نبھائے اور سیاسی ٹائمنگ کو برموقع استعمال کرنے کے لیے آنکھیں بھی کھلی رکھے۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ بیگم کلثوم کی سنگین علالت کے سبب میاں صاحب کس ذہنی ازیت سے گزر رہے ہیں مگر ایک شوہر اور خاندان کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جماعت کے قائد بھی ہیں اور اس جماعت کے لاکھوں حامی بھی ہیں۔ پولنگ میں صرف ڈھائی ہفتے کا فاصلہ ہے۔ ایک زیرک سیاستداں کو ایسے میں کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔

بیگم صاحبہ کی حالت اگر بہتر نہ بھی ہوئی تب بھی وہ وینٹی لیٹر پر ہی رہیں گی۔ میاں صاحب ان کے سرہانے بیٹھ کر کیا مدد کر سکتے ہیں؟ مگر سفاک حقیقت یہ ہے کہ انتخابات وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں۔ میاں صاحب یہ بھی جانتے تھے اور ہیں کہ عدالت انھیں مزید کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں۔

ایسے میں میاں صاحب کو کیا کرنا چاہیے؟ جب آپ سیاست کے سفاک شعبے میں پینتیس، چالیس برس سے موجود ہی ہیں تو آپ سے زیادہ کسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کاروبار میں ٹائمنگ ہی سب کچھ ہے۔ سات دن بعد بھی اگر آپ آتے ہیں تو وہی ہو گا جو آج ہونے والا تھا مگر سات دن بعد انتخابی مہم کے لیے صرف ایک ہفتہ رہ جائے گا اور سیاست میں بقول آنجہانی برطانوی وزیرِ اعظم ہیرلڈ ولسن ایک ہفتہ بہت لمبا عرصہ ہے۔ اتنا لمبا کہ اکثر اوقات برسوں پر پھیل جاتا ہے۔

ہاتھوں سے لگائی گرہ دانتوں سے کھولنے کا نام ہی تو سیاست ہے۔ گر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر،

آپ ایک اور نیند لے لیجیے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا (جون ایلیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).