سوشلستان: ’ماہواری بیماری نہیں ہے‘


سوشلستان میں ایون فیلڈ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ جس فیصلے کے آنے کا اعلان اب تک کئی بار کیا جا چکا ہے۔ اس سارے سیاسی ہنگامے میں ٹوئٹر پر ایک اہم ٹرینڈ سامنے آیا جو ہے ‘نو چھٹی’۔ اسی پر ہم بات کری گے اس ہفتے کے سوشلستان میں۔

‘نو چھُٹی’

احوال یوں ہے کہ ایک پاکستانی خاتون صحافی نے ٹوئٹر پر لکھا ‘جب مجھے پہلی بار ماہواری ہوئی تو میں سکول میں تھی۔ میرے ذہن میں سینٹری پیڈز یا رومال کا کوئی تصور نہیں تھا اگرچہ میرے سکول میں کئی لڑکیاں تھیں۔ میں خون کے دھبے لگی شلوار کے ساتھ جب گھر پہنچی تو میں نے اپنی والدہ کو بتایا۔ انہوں نے مجھے ایک سینٹری رومال دیا اور مجھ پر طنز کیا۔’

انھوں نے مزید لکھا ‘ماہواری یہاں ایک ممنوع موضوع ہے جس پر بات کی جانی چاہیے۔ یہ ذاتی معاملہ بھی ہے کیونکہ کسی کو یہ حق نہیں حاصل کہ وہ کسی لڑکی سے پوچھے کہ اس کی ماہواری کب شروع ہوتی ہے اور کب ختم۔ دوسری جانب یہ بھی دیسی روایت کا حصہ ہے کہ ماں اپنی بہو سے کھُل کر اُس کی ماہواری کے بارے میں پوچھتی ہیں۔’

اس ٹویٹ پر صحافی کو بہت باتیں سننا پڑیں کچھ لوگوں نے تو ان کو میسیج کر کے بدزبانی بھی کی۔

وقار عظیم نے جواب دیا کہ ‘اچھی کہانی ہے۔ میرا خواب تھا ایسی کہانی سننا بہت شکریہ لبرلز۔ دوسروں کو تعلیم دینے اور اپنے ذاتی مسائل کو افشا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔’

علی خان نے تحریم سے پوچھا کہ ‘کیا آپ مسلمان ہیں؟’

ماہواری

ماہواری کو ایک بیماری کی بجائے ایک قدرتی عمل تصور کیا جائے

خالد محمود نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ‘بے وقوف، یہ کوئی جگہ ہے جہاں ایسی چیزیں شیئر کی جائیں؟’

ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ جس کا ہینڈ ‘بدتمیز پاکستانی’ ہے نے لکھا ‘برا مت مانیے گا کہ مگر جو آپ کر رہی ہیں وہ توجہ حاصل کرنے کا ایک گھٹیا طریقہ ہے۔’

عدنان رشید نے سوال کیا کہ ‘کیا آپ کے حقیقی والد یا بھائی ان مسائل پر کمنٹ کریں گہ۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کی بیٹی یا بہن اپنے حقیقی اور ذاتی مسائل پبلک میں زیرِ بحث لا رہی ہے؟’

جب عدنان کو جواب دیا گیا کہ ‘وہ جانتے ہیں اور اتنے غیرت مند نہیں جتنے آپ ہیں اور مجھے اس پر خوشی ہے’ تو عدنان نے لکھا ‘سادہ الفاظ میں آپ یہ تسلیم کر رہی ہیں کہ وہ بے غیرت ہیں۔’

کہاں ایک بات جو انسانی جسم کے ایک قدرتی عمل سے شروع ہوئی اور ‘بے غیرتی’ کے فتوے تک جا پہنچی۔

مگر اس حوالے سے بہت ساری خواتین اور مردوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

ماہواری

سوشل میڈیا پر خواتین نے ماہواری کے بارے میں گفتگو کرنی شروع کی جو پاکستان میں خواتین کے خیال میں ایک ممنوعہ موضوع ہے

عائشہ جمیل نے لکھا ‘اس موضوع پر بہت خاموشی ہے جس کے ساتھ معلومات تک رسائی کی کمی بھی ہے جس کے نتیجے میں لڑکیوں اور خواتین کو اپنے جسم کے بارے میں بہت کم یا بالکل معمولی سمجھ بوجھ ہے۔’

عائشہ نے اس حوالے سے کی جانے والی باتوں پر لکھا ‘غسل مت لو، ٹھنڈے پانی کو ہاتھ مت لگاؤ یا مت پیو، مصالحے دار کھانا مت کھاؤ۔ یہ وہ سارے توہمات ہیں جو لڑکپن میں لڑکیوں کو بتائی جاتی ہیں ماہواری کے حوالے سے۔’

فاروق احمد کا کہنا تھا کہ ‘تعلیم واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم انسان کے جسم کے قدرتی نظام کے بارے میں پائے جانے والے ان قدامت پسندانہ اور غصہ دلانے والے خیالات کو بدل سکتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ماہواری کے بارے میں بات کرنا شہرت حاصل کرنے کے لیے سٹنٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیوں ایسے لوگ جن کے دماغ نہیں ہیں انھیں قیمتی آکسیجن ضائع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔’

فاطمہ الٰہی کا کہنا تھا ‘ماہواری ایک زبردست اور خوبصورت عمل ہے جو نسوانیت کی روح ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے ایک مرض سمجھنا بند کر دیں۔’

اس ہفتے کی تصاویر

تمباکو

چارسدہ کے قریب ایک مزدور تمباکو کے پتے جمع کر رہا ہے۔
پانی

پانی دو ووٹ لو، لاہور میں نوجوان احتجاج کرتے ہوئے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp