لائی لگ کپتان سیاست سیکھ گیا


صدیوں تک یادگار بن کر رلنے والا پانامہ فیصلہ کمزور ہے۔ یہ سمجھنے میں کپتان کو چھ سات مہینے لگ گئے تھے۔ ہمارا صابن سلو بھی تو ہے۔ اشتہار یاد آ گیا کہ کپتان بھی تو صفائی کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ کپتان کے مداحوں سے معزرت اگر انہیں برا لگا ہے کہ ان کے کپتان کو سادہ بات اتنی دیر میں سمجھ آتی ہے۔

آپ خوش ہو جاؤ یار نیب عدالت کا فیصلہ سمجھ آنے میں کپتان کو صرف چھ گھنٹے لگے ہیں۔ سوات جلسے میں فیصلے کی اندھا دھند تعریف کرنے کے بعد رات کپتان کا بیان تھا کہ وہ سزا ملنے پر خوش نہیں ہے۔ وہ اصل میں ادارے مضبوط ہونے پر خوش ہو رہا ہے۔

عدالتی فیصلوں پر بندہ کیا تبصرے کرے۔ اس فیصلے میں لکھا ہوا ہے کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ ملکیت ثابت نہیں ہوئی۔ ملکیت نہیں ہے یہ بھی ثابت نہیں ہوا۔ نوازشریف کی کوئی بنک ٹرانزیکشن بھی ثابت و موجود نہیں ہے۔ پھر بھی فیصلہ آیا ہے کہ دس سال قید سوا ارب جرمانہ اور دس سال کے لیے سیاست الیکشن سے نا اہلی۔

نا اہلی سزا مکمل ہونے کے بعد شروع ہو گی۔ یعنی جب انشا اللہ تعالی نوازشریف سزا مکمل کر کے دس سال بعد پاکستان کی ساری جیلوں کی سیر کر کے نکلیں گے۔ تو اٹھتر سال کے ہوں گے۔ دس سال نا اہل رہیں گے اور اٹھاسی سال کی بالی عمر میں دوبارہ سیاسی سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے۔ ارے دیوانو مجھے پہچانو کہاں سے آیا میں ہوں کون۔

بہترین اور پکا کام کیا ہے۔ مریم سترہ سال بعد سیاست میں حصہ لے سکیں گی۔

حاکم علی زرداری کیس میں سپریم کورٹ نے کچھ باتیں طے کی تھیں۔ کرپشن کی جائیداد ثابت کرنے کے لیے پہلے جائیداد کی ملکیت ثابت کرنا ضروری ہے۔ یہ ثابت کرنا بھی اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دیا تھا۔
جب لندن فلیٹوں کا یہ کیس رلتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچ گا تو بہت ممکن ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں۔

جسٹس ثاقب نثار جنوری دو ہزار انیس میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بابے رحمت کو ہم کتنا یاد کریں گے۔ جسٹس کھوسہ پھر چیف جسٹس بنیں گے۔ انہوں نے ہی پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کی بھی سربراہی کی تھی۔ گاڈ فاڈر یاد آیا، اس سے پہلے حیف ہے اس قوم پر والی خلیل جبران کی نظم بھی سنا چکے ہیں یوسف رضا گیلانی کیس میں۔ جسٹس کھوسہ دسمبر دو ہزار انیس میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان سے مہینہ پہلے نومبر میں ہی جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے۔

ریٹائرمنٹ کی اتنی باتیں ہو رہی ہیں تو آپ کو کچھ ترقیوں تعیناتیاں کی بھی خبر دیں۔ حال ہی میں بورڈ ہوا ہے سینکڑوں افسروں کی ترقیاں ہوئی ہیں۔ اب ان کی تعیناتیاں ہو رہی ہیں۔ اگست تک یہ تعیناتیاں مکمل ہو جائیں گی۔ ہمارے مشہور محکمہ زراعت میں دور دور تک افسر بدل جائیں گے۔ ساتھ ہی سیاسی فصلوں کی شکل ہی بدل جائے گی۔

ہماری فوج ایسے ہی بہترین ادارہ نہیں مانی جاتی۔ اپنے پروفیشنل ازم، اپنی روایت، میرٹ اور تبدیلی کے مستقل اور پائیدار نظام کی وجہ سے ہی مضبوط و موثر ہے۔ آپ فوج کا عمل دخل کم کرنا چاہتے ہیں تو اس سے زیادہ پروفیشنل ہو جائیں۔ اپنا کام کرنا سیکھ لیں تو یہ اپنے کام سے لگ جائیں گے، خیریہ الگ بحث ہے۔

فاٹا میں جب آپریشن شروع کیا گیا تو وہاں کے مقامی لوگوں کو اور ملک حضرات کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔ ملک حضرات جی جان سے افسروں کے حمایتی بھی ہو گئے۔ روٹیشن اور ریسٹ دینے کے اندرونی نظام کی وجہ سے جب یونٹوں کو آپریشن ایریا سے تبدیل کیا گیا تو اک مسئلہ ہوا۔ ملک حضرات مایوسی کا شکار ہوئے جب نئی یونٹ آنے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ ان کا دوست افسر تو چلا گیا۔ اس سے غیر متوقع مسائل پیدا ہوئے۔
”ہمارا دوست چلا گیا“ کا تاثر اس کے باوجود قائم ہوا کہ فوجی افسران بہت زندہ دل اور فرینک ہوتے ہیں۔

اب نئی تعیناتیاں ہونے کے بعد، جو اک روٹین کا عمل ہے، ہمارے مخدوم ملک چوھدری اور خان حضرات جب اپنی شکایت گلے یا منصوبے اور وعدے یاد کرانے پہنچیں گے تو نیا بندہ بیٹھا ہو گا۔ بندہ بھلے ان سیاستدانوں جتنا ہی بے شرم ہو۔ بہت مختلف قسم کی بہادری چاہیے اپنی بے وفائی اور اس کے صلے میں وعدے یاد کرنے کے لیے۔ وہ بھی نئے بندے کو۔

ٹوٹے دل والے ان لوٹا سیاستدانوں کے لیے اچھی خبریں نہیں ہیں۔ کپتان حیران کن طور پر سیاست سیکھ گیا ہے۔ یہ ان کے لیے خاص طور پر بری خبر ہے جو کپتان کو مینیج کرنا چاہتے ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ کپتان مینیج ہو سکتا ہے۔ کپتان سیاست ہی نہیں سیکھ گیا اپنی طاقت بھی پہچان گیا ہے۔

اس نے وہ بات جان لی ہے جو چالیس سال اقتدار کی راہداریوں میں پھر کر شہباز شریف نہیں جان سکے۔ وہ بات جس کا مولوی خادم کو پتہ ہے اور شہباز شریف کو نہیں پتہ۔ سادہ سی بات ہے کہ کپتان جان گیا ہے وہ تب تک طاقتور ہے جب تک اس کی مداح اس کی یوتھ اس کے پیچھے کھڑی ہے۔

ہم لوگ کپتان کے یو ٹرن پر ہنستے رہے ہیں۔ اب بھی ہنس سکتے ہیں کہ یہ ہوتے ہی اتنے مزاحیہ ہیں۔ ان یو ٹرن کے پیچھے اک کھلا راز تھا، راز ہے، جو اوجھل رہا۔ وہ یہ کہ کپتان اپنے فالوورز کے موڈ کو دیکھ کر اپنا فیصلہ بدل لیتا ہے۔ اپنی فالوونگ برقرار رکھ لیتا ہے بھلے اس پر دنیا جتنا مرضی ہنسے وہ پروا نہیں کرتا۔

کپتان اس وقت سادہ اکثریت لینا چاہ رہا ہے۔ اس نے پہلے محکمہ زراعت کے ایس ڈی او حضرات کو صاف جواب دیا کہ اپنا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اپنے پاس رکھو۔ یا تو یہ میری پارٹی میں شامل ہوں یا پھر میں اپوزیشن میں رہوں گا۔ اب بھی وہ جب مولانا فضل الرحمن کو اپوزیشن میں بٹھانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ آصف زرداری کو جیل بھیجنے کی بات کرتا ہے تو اصل میں ایس ڈی او حضرات کے منصوبوں پر پانی پھیرتا ہے۔

وہ صاف بتا رہا ہے کہ یا تو میں اکثریت سے آؤں گا یا پھر اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ اب اس کے سپورٹروں کی مجبوری ہے کہ وہ کپتان کو سادہ اکثریت دلوائیں ورنہ ایسی کوئی مخلوط حکومت ڈھائی دن بھی نہیں چلتی۔ اس سے زیادہ تو چھنو کی جوانی چل جاتی ہے۔

کپتان کی اب بھی ایک ہی خامی ہے کہ اسے جو جدھر لگائے وہ ادھر جی جان سے لگ جاتا ہے۔ تب تک تو لگا ہی رہتا ہے جب تک اس کے مداح ہالالالا کر کے اسے یوٹرن سے موڑ کر نہیں لاتے۔ کپتان کی یہ لائی لگ طبعیت ہی واحد امید ہے کہ اسے قابو رکھا جا سکتا ہے۔ پر کتنا یہ دیکھنا ہو گا کہ بہرحال لائی لگ کپتان سیاست تو سیکھ ہی چکا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi