محمد کاظم …. علم کی بات، کل کی بات، ہوئی


میں نے کاظم صاحب جیسے عالم آدمی سے تعلق کو ہمیشہ اپنی کسی نیکی کا انعام جانا۔ میرا ان سے ملنا اس زمانے میں رہا جب ان کی زندگی کا سورج اتار کی جانب گامزن تھا۔ ساڑھے چار برس میں ان سے ملاقات زیادہ تر ان کے گھرمیں رہی لیکن کبھی کبھار وہ لاہور میں کتابوں کی مشہور دکان ”ریڈنگز“ پر آتے تو بھی ان سے ملنا ہو جاتا۔ ان سے تعارف اس انٹرویو کے ذریعے سے ہوا جو میں نے ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے کیا۔ اس دور کے ہمارے میگزین انچارج عامرہاشم خاکوانی اورمیرا، دونوں ہی کا خیال تھا کہ ایک تو صاحبان علم کو انٹرویو کیا جائے اوران میں سے بھی ترجیحاً وہ حضرات ہمارا ہدف ہونا چاہییں جوگوشہ نشین ہیں۔

ایک بار ایسے افراد کی فہرست بنائی تو اس میں کاظم صاحب کا نام سرفہرست رہا، جن کے بارے میں سنا تھا کہ کم آمیز ہیں، اور انٹرویونہیں دیتے۔ خیر! جی کڑا کر کے ایک دن کاظم صاحب کو فون ملایا اورمدعا بیان کیا۔ ایسا کورا جواب دیا کہ دوبارہ انٹرویو کی بات کرنے کی کوئی جرات نہ کرے۔ تھوڑے دن بعد ہم نے مسعود اشعر صاحب کا انٹرویو کیا جو انھیں اتفاق سے پسند آ گیا۔ ہم نے ان کے خود پر قائم اعتماد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، عرض کی کہ کاظم صاحب کا انٹرویو کرنے کی بڑی خواہش ہے، پر وہ مانتے نہیں۔

مسعود اشعر صاحب نے بڑے یقین سے کہا کہ بھئی! وہ مانتے کیوں نہیں، ہم ان سے بات کریں گے، ضرور دیں گے وہ انٹرویو۔ اس وقت تو ہم نے سمجھا کہ شاید مسعود اشعرصاحب اپنی دوستی پرکچھ زیادہ ہی بھروسا کر کے یہ بات کر رہے ہیں مگر انھوں نے کاظم صاحب سے بات کی اورنہ جانے ان سے کیا کہا کہ وہ انٹرویو پر آمادہ ہو گئے۔ انٹرویو شائع ہوا تو کاظم صاحب کے خیالات لوگوں کو بہت پسند آئے، اور سچی بات ہے مجھے پھر کبھی کاظم صاحب کے انٹرویو جتنا فیڈ بیک نہ ملا۔ کاظم صاحب بھی اس کاوش سے خوش ہوئے۔ ایک دن ازراہ تفنن کہنے لگے کہ آپ نے مجھے مشہور کر دیا اورمیری سوسائٹی کے لوگوں کو اب معلوم ہوا ہے کہ میں کوئی پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ چوکھٹوں کی صورت میں اپنے خیالات کی پیشکش انھیں بے حد پسند آئی۔

میرے ساتھ بات چیت میں کاظم صاحب نے جماعت اسلامی چھوڑنے کی وجوہات پرجس دن روشنی ڈالی، اس سے اگلے روز فون پر مجھ سے کہنے لگے کہ جماعت سے متعلق ان کی باتیں شائع نہ کی جائیں تو بہتر ہے، کہیں جماعت والے برا نہ مان جائیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مسئلہ پیدا ہو اوراب توجماعت اسلامی کے کردار پر اس سے کہیں زیادہ تند لہجے میں لکھا اور بولا جاتا ہے اور یوں بھی آپ نے ذاتی حوالے سے بات کی ہے۔ انھوں نے میری بات مان لی۔ کاظم صاحب نے ایک بار بتایا کہ ابوالخیرمودودی کے بارے میں ان کی یادداشتوں کو ممتازادیب شمس الرحمٰن فاروقی نے جماعت اسلامی (انڈیا) کی ناراضی کے ڈر سے اپنے رسالے ”شب خون“ میں چھاپنے سے معذرت کرلی تھی۔ یہ تحریر بعد میں ”سمبل“ میں علی محمد فرشی نے جوں کی توں چھاپ دی۔

(اس بارے میں جناب شمس الرحمٰن فاروقی کا موقف ہے ”صرف جماعت اسلامی نہیں، مولانا مودودی مرحوم کے مداح اور بھی بہت سے اس ملک میں ہیں۔ لیکن میرا اصول رہا ہے کہ“ شب خون ”میں کوئی ایسی بات نہ چھپے جس پرذاتیات کا شبہ ہو۔ کاظم صاحب مرحوم کی سب باتیں ان کی اپنی معلومات اور تجربے پرمبنی تھیں، ان میں جھوٹ کا شائبہ مجھے کہیں نہ ملا تھا۔ لیکن آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے اور خاطراحباب کا خیال رہے، یہ ہمیشہ میرا دستور رہا)

کاظم صاحب کے فکری سفر کا آغاز مولانا مودودی کی تعلیمات کے زیر اثر ہوا۔ ”پردہ“ سمیت مولانا مودودی کی چھ کتابوں کو انھوں نے اردو سے عربی میں ترجمہ کیا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی اوراس کے بانی سے جن دو وجوہات کی بنیاد پر وہ دور ہو گئے، ان کے بارے میں انھوں نے انٹرویو میں بتایا:

”مولانا امین احسن اصلاحی کے جماعت سے الگ ہونے پر جماعت کی علمی فضا متاثر ہوئی۔ جماعت میں وہ لوگ زیادہ نمایاں ہو گئے جن کا ذہن علمی سرگرمیوں کے بجائے سیاست میں زیادہ چلتا تھا جس سے جماعت کا مزاج اسلامی اور اصلاحی کی بجائے سیاسی ہوتا گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ 1964 ء میں میرے آٹھ سالہ بیٹے کا انتقال ہوا جس کی موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ اس صدمے پر ان لوگوں نے میری دلجوئی کی جن سے نظریاتی اعتبارسے میرا اختلاف تھا لیکن اگر کسی نے میرے ساتھ تعزیت نہ کی اور مشکل کی اس گھڑی میں میری خبرنہ لی تووہ جماعت اسلامی تھی۔

مولانا مودودی نے اظہار افسوس کے لیے نہ مجھے خط لکھا نہ ہی کسی ذریعے سے پیغام دیا، اور نہ مجھ سے مل کرافسوس کیا حالانکہ میں مولانا مودودی کی بیشتر تحریروں کا اردو سے عربی زبان میں ترجمہ کر چکا تھا اور ان سے خاصے عرصہ سے میرا تعلق تھا۔ اس زمانے میں مغربی فلسفہ کا بھی خوب مطالعہ کیا تو کچھ اس کا بھی اثرتھا کہ میں جماعت اسلامی کے اثرسے نکل گیا۔

مولانا مودودی کوجب میری ناراضی کی اطلاع ملی تو انھوں نے مجھے کھانے پر بلایا اور کہا کہ ’میں اس لیے آپ سے تعزیت کے لیے نہ آسکا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں، میرے ملنے سے کہیں آپ حکومت کی لسٹ میں نہ آ جائیں، کراچی میں میرا برادر نسبتی بھی سرکاری ملازم ہے، میں اس سے ملنے سے بھی مجتنب رہتا ہوں۔ ‘ اس بات نے مجھے مطمئن نہ کیا اور مجھے یہ عذر لنگ ہی لگا۔ اس کے بعد وہ آمدم بر سر مطلب پر آ گئے اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ تفہیم القرآن کا عربی میں ترجمہ کریں۔

وہ مجھ سے ترجمہ اس لیے کروانا چاہتے تھے کہ عربوں نے ترجمے کے لیے میرا نام تجویز کیا لیکن اب میں یہ کام کرنا نہ چاہتا تھا۔ مولانا مودودی مصررہے اور میں ٹالتا رہا۔ میں نے ان کو بتایا کہ جدید عربی ادب پڑھنے سے میرا اسلوب اب پہلے والا نہیں رہا۔ اس پر مولانا مودودی کہنے لگے، آپ یہ بات مجھ سے نہ کہیں، میں جانتا ہوں آپ کسی بھی زمانے کی عربی لکھ سکتے ہیں۔ میں نے سرکاری مصروفیات کا بھی عذرکیا لیکن وہ مانے نہیں، اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قاہرہ سے کاظم کو اہم تفاسیر منگوا کر دیں لیکن وہ تفاسیر مجھ تک نہ پہنچیں اورنہ ہی اس کے بعد انھوں نے مجھ سے ترجمے کے بارے میں کہا۔ وہ بڑے ذہین آدمی تھے، انھوں نے اندازہ کر لیا تھا کہ میں اب یہ کام نہیں کروں گا کیونکہ جب پہلے مجھے مودودی صاحب کے کام کا ترجمہ کرنے کو کہا جاتا تو میرے چہرے پر چمک آجاتی۔ اب وہ کہہ رہے تھے تو میں انکار کررہا تھا۔ ”

عجب بات ہے، کاظم صاحب اگر فکری سفرکے ابتدائی زمانے میں مولانا مودودی کی کتابوں کا ترجمہ کرتے رہے تو زندگی کے آخری برسوں میں ان کے فکری مخالف ڈاکٹرفضل الرحمٰن کی تین کتابوں کو مسعود اشعرصاحب کی تحریک پر انھوں نے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا۔ یہ کتابیں ”مشعل“ نے ”اسلام اور جدیدیت“، ”قرآن کے بنیادی موضوعات“ اور ”اسلام“ کے نام سے شائع کیں۔ کاظم صاحب کا عربی زبان سے ناتا دو اتفاقات کا مرہون منت رہا۔ ان میں سے ایک انھیں وقتی طورپرعربی سے دور لے گیا تو دوسرے اتفاق نے اس زبان سے اٹوٹ تعلق کی بنیاد رکھ دی۔ ان دو واقعات کے بارے میں انٹرویو میں تومختصراً بتایا لیکن ”ایکسپریس“ نے جب معروف شخصیات کی زندگی کے دو تین یادگارواقعات پر مشتمل سلسلہ ”بھلا نہ سکے“ شروع کیا تو اس کے لیے میں نے کاظم صاحب کو زحمت دی تو انھوں نے عربی سے اپنے شغف کی بنیاد سے متعلق دو واقعات کو قدرے تفصیل سے بیان کیا۔

محمد کاظم کے بقول: ”انسان کی زندگی میں کوئی ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل کے رکھ دیتا ہے۔ ایسا واقعہ مجھے اس وقت پیش آیا جب میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرکے نویں جماعت میں داخل ہوا۔ ہمارا سکول واقع احمد پورشرقیہ میں آٹھویں جماعت کا امتحان ریاست بہاولپور کا ایک بورڈ لیتا تھا۔ میں اس امتحان میں اونچے نمبر لے کر کامیاب ہوا تھا اور اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ نویں جماعت میں اختیاری مضمون کے طور پر میں نے عربی کا انتخاب کیا۔

انھی دنوں میرے گھروالوں کو کسی وجہ سے بہاولپورجانا پڑا۔ آٹھویں جماعت میں میری اعلیٰ کارکردگی کی اطلاع وہاں میرے بزرگوں کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ میرے اہل خانہ مجھے ایک ماموں سے ملانے کے لیے لے گئے جو بہاولپور کی عدالت میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ماموں نے میری پیٹھ تھپکی اورمجھے شاباش دی۔ ساتھ ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا، اچھا تو اب نویں جماعت میں کون سا مضمون لینے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا عربی کا مضمون میں نے لے بھی لیا ہے۔

اس پر وہ جلال میں آ گئے اور سرائیکی میں اپنی گونج دارآوازمیں پکارے، “ کیناں کیناں (بالکل نہیں، بالکل نہیں ) تمھیں سائنس کا مضمون لینا ہو گا۔ اب براہ مہربانی واپس جا کرعربی کے بجائے سائنس کا مضمون لو۔ تمھیں آگے بھی سائنس ہی پڑھنی ہے۔ ”میرے یہ ماموں بڑے دبدبے والے تھے۔ انھوں نے جس طرح مجھے عربی کا مضمون لینے سے روکا مجھے یوں لگا جیسے میرے متعلق یہ حکم ان کی عدالت سے صادر ہوا ہے، جس سے سرتابی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

میں نے احمد پورشرقیہ واپس آ کر میٹرک میں سائنس کا مضمون لے لیا۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی کے امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن نہ آ سکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجینئرنگ میں داخلے کے لیے بہاولپور میں جو مقابلہ ہوا میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میرے بزرگ مجھے انجینئرنگ میں بھیجنے پر بضد تھے۔ انھوں نے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیا تا کہ وہاں انجینئرنگ میں داخلے کے لیے امتحان میں شامل ہو کر قسمت آزمائی کروں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments