مفتی سلیم اور مشال خان کی نماز جنازہ


مفتی سلیم ایک جید عالم ہے جو جامعہ فاروقیہ کراچی سے فارغ التحصیل ہے۔ مدرسے سے فراغت کے بعد انہوں نے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام اباد سے علم افتاء کا کورس کیا۔ مفتی صاحب مختلف دینی مدارس میں درس و تدریس اور امامت کے شعبے سے منسلک رہے۔ درس و تدریس کیساتھ ساتھ انہوں مختلف اداروں کیلیے حساس موضوعات پہ اپنی شرعی رایے دیتے رہے ہیں۔ وہ باقی روایتی مولویوں سے الگ ایک متوان اور معتدل ببیانے کے حامل ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں حلقہ علما میں ماڈرن مفتی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کل رات جب مفتی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، تو یہ سمجھ آگئی کہ اگر ایک طرف مولوی الیاس گھمن اور مفتی قوی جیسے علمائے سو ہیں تو دوسری طرف مفتی سلیم جیسے علمائے حق بھی ارض وطن میں زندہ ہیں۔ میری نظر میں مفتی سلیم، مولوی کم اور اکسفورڈ یونیورسٹی کا “استاد” زیادہ لگ رہا تھا۔ چونکہ مفتی صاحب کا تعلق صوابی سے ہے، تو میں نے موقع کو غنیمت جان کر مشال خان کی قتل کے بارے میں پوچھا۔ مفتی صاحب کے چہرہ مبارک پہ ایک اضطراب  پھیل گیا اور افسردگی سے بولے، اس معصوم بچے کے ساتھ بہت زیادتی ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں مشال کے محلے کی مسجد میں کچھ عرصے کیلیے امامت کرتا رہا۔ اکثر ہفتہ یا اتوار والے دن میری ملاقات مشال خان سے ہوتی تھی۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ مشال اکثر میرے ساتھ گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر اسلام کے بارے کے بارے میں معلومات لیتا رہا۔ مشال خان کی دینی دلچسپی سے میں بہت متاثر ہوا تھا، اور میں نے اسمیں اجتہاد کا مادہ بھی دیکھا تھا۔ مفتی صاحب فرما رہے تھے کہ جب وہ باہر سے کچھ عرصے بعد پاکستان واپس لوٹے، تو مجھ سے بہت سارے سوالات کے جوابات اس لیے مانگتا تھا، کہ مستقبل میں وہ ان سوالات کا بطریقہ احسن جوابات دے سکے۔ مفتی صاحب فرما رہے تھے کہ مجھے مشال خان میں سب سے اچھی بات اس کی وہ حس تھی جو وہ سماج کی برابری کا سوچتا تھا۔ مشال خان کی ہمیشہ ہمدردی ان غریبوں کے ساتھ ہوا کرتی تھی، جو پڑھنا تو چاہ رہے تھے لیکن غربت اور تنگ دستی انہیں نہیں پڑھنے دیتی تھی۔ مشال خان ہمیشہ دوسری صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتا تھا اور نماز کے بعد وہ سب سے مسجد سے نکل کر لوگوں کے جوتے سیدھے کرتا تھا۔ انکسار اور خاکساری کی یہ عادت میں نے ایک بہت بڑی جامع مسجد کے امام بھی نہیں دیکھی تھی۔
مفتی صاحب نے کہا کہ میں زندگی میں کبھی بھی خود کو معاف نہیں کروں گا، کہ مشال خان قتل ہو گیا تھا اور میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھا سکا۔ مجھے تین دن بعد معلوم ہوا کہ مشال خان ایک سیاسی جھگڑے کی نذر ہوگیا تھا۔ جب میں واپس گاوں لوٹا تو اس مولوی سے ملاقات ہوئی جس نے مشال خان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا تھا۔ مفتی صاحب نے سب سے پہلے مولوی سے پوچھا کہ نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھایا، تو مولوی نے بتایا کہ وہ “کمونیسٹ” تھا۔ مفتی صاحب نے پھر پوچھا، کہ “کمیونزم” کسے کہتے ہیں۔ تو مولوی صاحب لاجواب ہوگیے۔ مولوی نے مفتی صاحب سے فرمایا، کہ میں نے خود اس کی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ اس پہ مفتی صاحب نے مولوی سے پوچھا کہ ویڈیو دیکھنے سے اگر کسی کا قتل واجب ہوتا ہے تو پھر مولانا فضل الرحمن کو بھی قتل کریں، کیونکہ وہ جیو کے پروگرام “ہم سب امید سے ہیں” میں طبلہ بجا رہا تھا، مفتی منیب الرحمن کو بھی قتل کریں، کیونکہ وہ ایک ٹی وی چینل کی پیروڈی ویڈیو میں ناچ رہا تھا۔ کسی کو قتل کرنے کیلیے ویڈیو کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ مولوی صاحب نے مفتی سے بولا کہ شجاع الملک نے بولا تھا، اور زیادہ تر لوگوں نے ان کے حکم کی تعمیل کی تھی۔ پھر مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اگر لوگوں کی کثرت ہی دلیل ہے، تو پھر فتح مکہ سے پہلے کے دور میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی، اور مشرکین مکہ کی تعداد بہت زیادہ تو کیا ہم کثرت کو حق کا سند دے دیں۔ مولوی صاحب چونکہ ایک روایتی مولوی تھا اور کم علمی نے اسے لاجواب کر دیا۔
مفتی سلیم صاحب فرمارہے تھے ، کہ انہوں نے مولوی صاحب کو مخاطب کرکے بولا، کہ اگر میں جایے وقوعہ پہ ہوتا، تو میں مشال کی نماز جنازہ، جناز گاہ میں بھی پڑھاتا، روڈ پہ بھی پڑھاتا، سکول اور گھر میں بھی پڑھاتا اور آخری جنازہ قبرستان میں بھی پڑھاتا۔ انہوں نے بتایا کہ روایتی مولویوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ کیمیون ازم کا مطلب کیا ہے، عبیداللہ سندھی کو نہیں پڑھا ہوتا ہے اور آکر منبر پہ بیٹھ جاتے ہیں۔ مفتی سلیم صاحب آجکل ایبٹ آباد کی ایک مسجد میں شیخ سعدی کی طرح معتکف ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).