الیکشن 2018 اور عوام میں سیاسی شعور


الیکشن 2018 پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین الیکشن تصور کیے جا رہے ہیں۔ اس بار پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف میں کڑا مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔ 2018 ء کے انتخابات 2013ء کے انتخابات سے ہر طرح سے مختلف ہیں۔ اس بارا لیکشن میں سیاسی حالات بھی مختلف ہیں۔ جب کہ ملکی حالات بھی مختلف ہیں۔ اور سیاست دانوں کے حالات تو کچھ زیادہ ہی مختلف ہیں۔ لیکن اس بار انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ عوام میں بہترین سیاسی شعور دیکھنے میں آیا ہے۔

جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں تو انتخابی امیدواروں نے اپنے حلقوں میں جانا شروع کر دیا ہے۔ وہ رہنما جنہوں نے پانچ سال تک حلقے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا انہوں نے جب اپنے حلقے میں جانا شروع کیا تو ووٹرز نے سوال کیا کہ پانچ سال تک تو حلقے کا رخ نہیں کیا اب ووٹ مانگنے کیوں آئے ہو؟ 2018ء کے الیکشن میں عوام کا یہ سیاسی شعور واقعی حیران کن ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی لوگوں میں ایسی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

ووٹرز کی طرف سے انتخابی امیدواروں سے سوال کرنے کا سلسلہ جمال لغاری کے حلقے سے شروع ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے جمال لغاری جب اپنے حلقے میں آئے تو ایک ووٹر نے ان سے سوال کیا کہ آپ پانچ سال کہاں تھے۔ جس کا جمال لغاری کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ روز قبل بلاول بھٹو کی ریلی پر بھی پتھراؤ کیا گیا جو کہ نا قابل توقع تھا۔ لیاری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں پینے کا صاف پانی مہیا نہیں ہے۔ پھر کیسے یہ لوگ ووٹ مانگنے آ جاتے ہیں۔ لیاری کے عوام کو اس طرح پیپلز پارٹی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتا دیکھ کر واقعی لگا کہ پاکستانی عوام میں سیاسی شعور پیدا ہو گیا ہے۔

اس کے بعد مختلف حلقوں سے ویڈیو سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ووٹرز نے انتخابی امیدواروں سے پچھلی پانچ سالہ کارگردگی کا حساب مانگا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، رانا افضل، اویس لغاری اور سکندر بوسن سمیت کئی سیاسی رہنماؤں سے عوام نے سخت سوالات کیے۔ اگر اس تبدیلی کو عام انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو میرے خیا ال سے یہ بہت اچھی تبدیلی ہے۔ مگر اس تبدیل ہوتی سوچ کا فائدہ تب ہو گا جب عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں گے۔ ایک بہت ہی سمجھدار دوست کی بات سن کر میں حیران رہ گئی کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھر کے آٹھ افراد ہیں اور ہماری والدہ نے سب کو کہہ دیا کہ جو ن لیگ کو ووٹ نہیں ڈالے گا اس کے ساتھ میری پکی ناراضگی ہے۔

اس طرح ایک دوست بتا رہی تھی کہ اس نے اپنے خاندان میں سب کو پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے باقاعدہ ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ جس میں وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو کچھ کھلا پلا کر ووٹ دینے کے لیے راضی کرتی ہے۔ جب کہ کسی گاؤں کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں۔ تو معلوم ہو گا کہ ابھی بھی وہاں پوری پوری برادری کسی ایک جماعت کو ووٹ دینے کا اعلان کرتی ہے۔ اور اگر کوئی برادری کے فیصلے کی مخالف کرتا ہے تو پھر اسے واجب الاقتل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم پھر بھی 2013ء کے انتخابات کے برعکس اس بار ووٹرز کی رائے تبدیل ہوئی ہے۔

پاکستانی عوام میں سیاسی شعور کا بیدار ہونا واقعی خوش آئیند ہے۔ اور عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے اور سوچ بدلنے کا کریڈٹ عمران خان اور میٖڈیا کو جاتا ہے۔ میڈیا نے عمران خان کے ذریعے لوگوں میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور آخرکار پاکستانی عوام یہ سوچنے لگ گئی ہے کہ جن لوگوں کو ہم کئی سالوں سے ووٹ دے کر ایوانوں میں بٹھاتے آ رہے ہیں انہوں نے اتنے سالوں میں پاکستان کے لیے کیا کام کیا ہے؟ غربت بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات تک مہیا نہیں ہیں۔

ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ پاکستانی عوام کا ذہن اور سوچ بہت جلدی بدل جاتی ہے۔ کچھ لوگ تو ووٹ ڈالتے وقت بھی اپنی رائے تبدیل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر اس مہنگائی، غربت اور کرپشن سے جان چھڑانی ہے تو اپنے ذہنوں کو پختہ کرنا ہو گا۔ اور ایک حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ پاکستان کے لیے کون سا حکمران بہتر رہے گا۔ یہ حتمی فیصلہ ہر ووٹر نے پاکستان کے لیے کرنا ہے۔ اس لیے عوام 2018ٗٗ ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہوئے اس بات کو ذہن میں ضرور رکھیں۔ کہ کیا آپ جس نشان پر ٹھپہ لگا رہے ہیں وہ آئندہ پانچ سال آپ کے ووٹ کا تحفط کر سکے گا۔ اور آپ کے ووٹ کا تحفظ تب ہی ممکن ہو گا جب آپ ان انتخابات میں ملک میں بیدار ہوتے سیاسی شعور کا فائدہ اٹھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).