فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں’ گے پر انڈیا میں تنازع


فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ ان دنوں انڈیا کے معروف ادارے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) میں تنازع کا باعث بنی ہوئی ہے۔

خبروں کے مطابق حکام نے ایف ٹی آئی آئی کی عمارت میں قائم ہوسٹل میں رہنے والے دو طلب علموں کو وہاں سے نکل جانے کا نوٹس دیا۔

انڈین میڈیا میں شائع خبر کے مطابق ان دونوں نے دیوار پر وہ نظم لکھی تھی جسے حکام نے ‘دھمکی آمیز’، ‘ونڈلزم’ اور ‘دیوار کو خراب کرنا’ قرار دیا ہے۔

جب بی بی سی نے پونے میں قائم ادارے ایف ٹی آئی آئی کی طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری روہت کمار سے رابط کیا تو انھوں نے بتایا کہ ‘کل پورے دن کے دھرنے اور بات چیت کے بعد حکام نے نوٹس کو ہولڈ پر رکھ لیا ہے لیکن کہا ہے کہ آئندہ ایسی حرکت ہوئی تو بخشا نہیں جائے گا۔’

انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے پہلے کہا کہ ‘صرف اسی وقت ان لوگوں کو جاری کی جانے والی نوٹس واپس لی جائے گی جب وہ تحریری معافی نامہ لکھیں اور دیوار پر بنائی گریفٹی پر سفیدی کریں۔’

طلبہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے اور اس طرح کے نوٹس ان کے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔

مقامی اخبار پونے مرر کا کہنا ہے کہ جن دو طلبہ کو سات تاریخ کی شام تک ہاسٹل کا کمرہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے ان میں سے ایک کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق مشرقی ریاست مغربی بنگال سے ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ان میں سے ایک دیوان جی نے بتایا کہ انھوں نے فیض کی ایک سطر لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس نظم نے مجھے کئی سطح پر متاثر کیا ہے اور اس کامقصد کوئی مزاحمت نہیں ہے لیکن انتظامیہ نے اس کا غلط مطلب نکالا اور انھوں نے سمجھا کہ ہم لوگوں نے کینٹین کی تجدید کاری کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔’

اخبار کے مطابق ادارے کے ڈائریکٹر بھوپیندر کینتھولا نے کہا: ‘دو طلبہ نے دھمکی آمیز نعروں کے ساتھ ایف ٹی ٹی آئی کی تازہ تازہ تجدید کاری کی جانے والی کینٹین کی دیوار اور دروازے پر گریفٹی بنائی ہے۔ یہ کام رات کے وقت چوری چھپے کیا گیا ہے۔ ایف ٹی آئی آئی کے گارڈ نے جب ان کو روکا تو وہ رکے نہیں ۔۔۔ اور یہ بات ناقابل قبول ہے۔’

روہت کمار نے کہا کہ یہ صرف ایف ٹی آئی آئی کی بات نہیں ہے بلکہ ملک میں جہاں کہیں بھی اظہار رائے کی آزادی کا ماحول ہے اسے کم کیا جا رہا اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’

فیض

فیض کی ایک یادگار تصویر جس میں احمد فراز، زہرہ نگاہ، گوپی چند نارنگ، اور افتخار عارف کے ساتھ نظر آ رہے ہیں

انھوں نے پوچھا کہ ‘ایک نظم کی ایک لائن، ایک آنکھ اور ایک مچھلی سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کوئی غلط بات نہیں لکھی گئی ہے، کسی کو گالی نہیں دی گئی پھر بھی اس طرح کی نوٹس کا آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کس طرح طلبہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’

روہت کمار کا کہنا ہے کہ جب سے ایف ٹی آئی آئی میں ان کا داخلہ ہوا ہے تب سے طلبہ کی سرگرمی کو روکنے کی کوشش میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہا کہ گذشتہ تین چار سال میں ملک کی فضا بدلی ہے اور اس طرح کی چیزیں دوسرے کیمپسوں میں بھی دیھکنے میں آ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل فیض احمد فیض کی بیٹی کو بھی انڈیا آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔

اسی جمعرات کو دہلی کے معروف تعلیمی ادارے جے این یو میں نو فروری سنہ 2016 کے ایک واقعے میں طلبہ یونین کے اس وقت کے صدر کنہیا کمار اور سکالر عمر خالد کی سزا برقرار رکھی ہے۔

عمر خالد کو یونیورسٹی سے معطل کرنے اور کنہیا کمار پر دس ہزار روپے جرمانے کو ایک اعلی رکنی جانچ کمیٹی نے برقرار رکھا ہے۔

عمر خالد کے ساتھ مجیب گٹو اور انربان بھٹاچاریہ کو بھی یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ سز ا کل یعنی نو جولائی سے نافذ العمل ہوگی۔

اس سے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ یونین ہال میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ایک تصویر مہینوں تنازعے کا باعث رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp