عمران خان سے پہلے بھٹو بھی ”نیا پاکستان“ بنا چکے ہیں


چھ جولائی کو جیسے ہی اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال قید کی سزا سنائی، تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے، جو سوات میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے، احتساب عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں سے کہا، ”خدا کا شکر ادا کریں کہ آج پہلی بار بڑے چوروں کو سزا ہوئی ہے“۔

بعض باتوں میں تکلیف دہ حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ عمران خان کا ردِ عمل سن کر میرا دماغ یکایک نجانے کیوں مارچ 1971 کے اُس دِن کی طرف چلا گیا جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تھا اور اس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا، ” خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا“۔

ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستان بچا نہیں تھا بلکہ اس عمل کے نتیجے میں جناح اور مسلم لیگ کا بنایا ہوا پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ آج کی طرح اُن دنوں بھی کئی لوگ ’خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے‘ کافی دنوں سے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں تلخیاں بڑھیں اور کوئی انتہائی اقدام اٹھایا جائے۔ اگر 1970 کے اخباروں کو اٹھا کر دیکھیں تو اس زمانے کے دانشوروں کے تبصرے ویسے ہی تھے جیسا کہ آج کل کے اکثر ٹیلی وژن اینکرز کے ہیں۔ کہا جا رہا تھا، بنگالی کالے، چھوٹے اور نکمے ہیں اور انہیں بچے پیدا کرنے اور آبادی بڑھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ اور یہ کہ وہ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

فوجی اقدام سے پہلے اکثریتی صوبے کے عوام کا فیصلہ نہیں مانا گیا تھا۔ اور بھٹو صاحب طاقت ور حلقوں کی پُشت پناہی سے ایسا کرنے میں پیش پیش تھے۔ جب ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی بات ہوئی تو بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ارکان سے مخاطب ہو کر کہا تھا، ”ڈھاکہ جانے والے ایک طرف کا ٹکٹ لے کر جائیں، کیونکہ وہ واپس آئے تو میں ان کی ٹانگیں توڑ دوں گا“۔

متشددانہ زبان کا استعمال بھٹو صاحب اور عمران خان میں ایک اور تکلیف دہ مشابہت ہے۔ عمران خان متشددانہ زبان کے استعمال میں بھٹو صاحب سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ جن کی یادداشت کمزور ہے وہ ان کی دھرنے کے زمانے کی تقریریں نکال کے دیکھ لیں۔ وہ تواس حد تک آگے نکل گئے تھے کہ انہوں نے لوگوں کو سول نافرمانی کی تحریک چلا کر اپنے ٹیکس دینے سے منع کر دیا تھا۔ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو اس کی حُب الوطنی ہمیشہ کے لئے مشکوک ہو جاتی۔ مگر لگتا ہے کہ اُن کو تو ہزار خُون معاف ہیں۔

بھٹو صاحب اور عمران خان میں ایک اور مشابہت مخالفین کا تمسخر اُڑانا بھی ہے۔ بھٹو صاحب نے ائیر مارشل اصغر خان کو آلو اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو چُوہا کہہ کر ان کا مذاق اُڑایا۔ عمران خان بھی شہباز شریف کو شو باز شریف، مولانا فضل الرحمان کو مولانا ڈیزل اور دوسروں کو کئی اور القابات سے نوازتے ہیں۔

لیکن ان سب چیزوں کے باوجود عمران خان، اُس وقت کے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مقتدر حلقوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔
اکثریتی صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ شکل میں نکلا اور وہ لوگ جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں سب سے آگے تھے، پاکستان سے الگ ہو گئے۔

طاقتور لوگ، دنیا میں کہیں بھی ہوں، اس زعم میں ہوتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے طاقتور حلقے بھی آخر وقت تک اسی نشے میں تھے کہ وہ کالے چھوٹے بنگالیوں سے نمٹ لیں گے۔ مگر ہوا کچھ اور جیسا کہ ایران والے جن کے پاس صدیوں کی دانش ہے کہتے ہیں، ”من در چہ خیالم و فلک در چہ خیال“۔ آسمانی فیصلے کچھ اور تھے۔

جناح کے پاکستان کو توڑنے میں اپنا حصہ بقدرِ جُثہ ڈالنے کے بعد بھٹو صاحب نے ایک ”نیا پاکستان“ بنانے کا اعلان کیا۔ 20 دسمبر 1971 کو پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنی تقریر میں انہوں نے کہا، ”اس وقت ہمیں اپنی تاریخ کے بد ترین بحران کا سامنا ہے، اب ہمیں ٹکڑے چننا ہوں گے، بہت ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، لیکن ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے، ایک خوش حال اور ترقی پسند پاکستان“۔ اب عمران خان بھی ”نیا پاکستان“ بنانا چاہتے ہیں جو بھٹو کے نئے پاکستان کے بعد دوسرا نیا پاکستان ہو گا۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ عمران خان کی زبان سے بار بار نئے پاکستان کا ذکر سُن کے ہمارے دِل کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں بنک، تعلیمی ادارے، شپنگ اور بھاری صنعت کو بیوروکریسی کے کنٹرول میں دے کر ملکی صنعت کی کمر توڑ دی گئی تھی جو ابھی تک نہیں سنبھل سکی۔

پارٹی کی بنیاد رکھنے والے جے اے رحیم جیسے بزرگوں کو ایف ایس ایف سے ٹھڈے مروا کر ملک میں انسانی اقدار کی نئی قسمیں متعارف کرائی گئیں، اور میر رسول بخش تالپور، مختار رانا، معراج محمد خان، اور ملک غلام مصطفےٰ کھر سمیت بے شمار لیڈروں کو بتایا گیا کہ لیڈر کے آگے چوں چراں کرنے والوں کی حیثیت کیا ہے۔ سندھ میں لسانی بنیاد پر فسادات کرائے گئے، نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرایا گیا جو بالآخر خود انہیں لے ڈوبا۔

بچی کھچی کسر ضیا الحق نے پوری کر دی۔ نئے پاکستان کے رقبے میں جو کمی ہو گئی تھی، اُسے نظریاتی سرحدیں بڑھا کر پورا کر دیا گیا۔ یعنی پہلے جسم و جاں کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا، اب روحوں کو مقید کرنے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔

مقتدر حلقے اکثریتی صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کی نفی کرتے ہوئے بھٹو صاحب کو اپنی حمایت سے بر سرِ اقتدار لائے تھے، جو ہر قیمت پر اقتدار میں آنے کو تیار تھے۔ آج پھر عمران خان مقتدر حلقوں کی حمایت سے اکثریتی صوبے کا مینڈیٹ چُرانے کی راہ پر چل نکلے ہیں، کیونکہ وہ بھی ہر قیمت پر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔

حالات میں اِن تمام تر مماثلتوں کے باوجود، جن کا میں نے ذکر کیا ہے، آج کی صورتِ حال کئی لحاظ سے مختلف بھی ہے۔ آج کا اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان نہیں بلکہ پنجاب ہے، جہاں سے خود عمران خان اور ان کے حامی حلقے بھی اپنی قوت حاصل کرتے ہیں۔ جس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ حالات کو اس نہج تک نہیں پہنچایا جائے گا جہاں سے واپسی کے راستے ناپید ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).