انسانی تاریخ جنگ اور جنگی ہیروز سے بھرپور ہے۔ اس دنیا میں جنگ کو ہمیشہ شاندار بنا کر پش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں سالوں سے ہمیشہ اپنے اپنے جنگجو ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ان لوگوں کا ہمیشہ حوصلہ بڑھا گیا ہے جو قتل و غارت کر کے انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے تھے۔ آج بھی قومیں۔ ملک اور قبائل قتل وغارت کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ کیا وہ انسان جو انسانوں کا قتل عام کریں۔ انہیں ہیروز بنا کر پیش کرنا چاہئے؟

ہر جنگ نے بے تحاشا دکھ۔ درد اور غم پیدا کئے ہیں۔ جنگ انسانیت پر ہمیشہ ایک عذاب کی طرح نازل ہوتی ہے۔ جو زندگی اور انسانیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ وہ جو شکست کھا جاتے ہیں۔ ان کے لوگ تو مرتے ہی مرتے ہیں۔ وہ جو فاتحین کہلاتے ہیں۔ ان کے بھی بے تحاشا انسان مارے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں فاتحین فتح کا جشن مناتے ہیں؟ انسان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے کبھی جنگ کی مذمت نہیں کی۔ انسانیت تو اسے کہتے ہیں جو قتل عام کی مذمت کرے۔ روایات، مذاہب، نظریات اور افکار کی وجہ سے جنگیں لڑیں گئی۔ پھر انہیں اساطیری خیالات نے ان جنگوں کو شاندار اور عظیم بنا کر پیش کیا۔ فاتحین کے قصیدے لکھے گئے۔ ان کے مجسمے تراش کر چوکوں چوراہوں میں نصب کئے گئے۔ ان قتل و غارت گری کرنے والے فاتحین کو ہیروز بناکر پیش کیا گیا۔ یہ ہیروز قتل غارت گری کرنے والے تھے۔

صرف قوم پرستی اور محب وطنی کے نام پر ان قاتلوں کو ہیروز بنایا گیا۔ سکندر نے یونان میں قتل عام کیا۔ مشرق وسطی میں تباہی مچائی۔ اس لٹیرے نے دوسرے ملکون میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا اسی طرح تیمور اور چنگیز خان نے انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار قائم کئے۔ ان جنگوں کی وجہ سے کڑوروں دردناک کہانیاں منظر عام پر آئیں۔ لیکن تاریخ میں ان درد ناک کہانیوں کا خال خال ہی ذکر ملتا ہے۔ قاتلوں کے قصیدے تاریخ میں شاندار انداز میں لکھے گئے۔

انسانی تاریخ میں صرف ایک بادشاہ ایسا تھا جس نے جنگوں سے سبق سیکھا۔ اس کا نام تھا اشوک یا اشوکا۔ اشوک نے جب ایک جنگ میں ہزاروں انسانوں کی لاشیں دیکھیں۔ زخمیوں کی چیخ و پکار کو محسوس کیا۔ تو پھر اس نے جنگوں سے توبہ کرلی۔ وہ جنگیں جو جارحانہ انداز میں لڑی جاتی ہیں، جو دوسروں کے مال و دولت کی لوٹ کھسوٹ کے لئے برپا کی جاتی ہیں۔ جو اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے ہوتی ہیں۔ ایسی جنگوں کی وجہ سے انسانی تاریخ میں کروڑوں انسان قتل ہوئے۔ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم کو ہی دیکھ لیں۔ اس دور میں یورپی اقوام پر جنگی جنون چھایا ہوا تھا۔ یورپی انسان ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے مرے جارہے تھے۔ اس دور کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام بھی جنگ چاہتے تھے اور خواص تو چاہتے ہی چاہتے تھے۔

پہلی جنگ عظیم میں بھی یہی کیفیت تھے۔ یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ وغیرہ کو اپنی کا لونیاں بنانے کے لئے۔ ان پر قبضہ کرنے کے لئے آپس میں لڑ رہے تھے۔ یورپی چاہتے تھے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ کالونیاں ہوں۔ سب چاہتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرسکیں۔ سرمایہ دار جنگوں پر اس لئے سرمایہ لگا رہے تھے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ منڈیاں دستیاب ہوں۔ عام لوگوں کو تاریخ انسانی میں ہمیشہ اس بات پر بیوقوف بنایا گیا کہ جنگ ہو گی تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ خوش حالی آئے گی۔ فلاح و بہبود ہوگی جنگوں میں عام انسان کا کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف قتل ہوتے ہیں۔ حقیقی مفادات حکمرانوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کے ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم چار سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں مہلک ترین ہتھاروں کا استعمال کیا گیا۔ ٹینکوں اور جیٹ طیاروں سے بمباری کی گئی۔ اس جنگ میں موت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بربادی کے سوا کچھ نہ تھا۔ قومی پرستی کے نام پر لاکھوں انسان قتل کئے گئے۔ اس جنگ کے بعد یورپ میں سناٹا چھا گیا۔ توقع نہیں تھی کہ اس قدر لوگوں کا قتل عام ہو گا۔

پاکستان میں بھی انسانوں کے دماغ میں یہی بات بٹھا دی گئی ہے کہ بھارت پر ایٹم بم گرا دینا چاہیئے۔ انڈیا کی ایسی کی تیسی پھیر دینی چاہیئے۔ یہ خیال ہی پاگل پن ہے۔ عوام، سیاستدان اور جرنیلوں کے ذہن میں یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ جنگ سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ جب ملک تنازعات میں گھرے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان مسائل ہوتے ہیں۔ تو اس کا حل مذاکرات ہیں۔ لیکن عوام کو گمراہ کر کے کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑی جانی چاہیئے۔ اس سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ جنگوں سے مسائل حل ہوئے ہوں ؟

آج یورپ میں جنگ کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے تو اسکی وجہ وہ بیک گراونڈ ہے۔ قوم پرستی، حب الوطنی، قومی پرچم، ترانے سب کے سب انسانیت کی بربادی کا سبب بنے ہیں۔ آج وہ انسان جو جنگوں میں مارے گئے ہیں۔ اس زمین پر دوبارہ واپس آجائیں۔ اور دیکھیں کہ دنیا میں رقص ہے۔ خوشیاں ہیں۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے۔ لیکن وہ کیوں جنگ کے نام پر مارے گئے۔ وہ سوچیں گے کہ انہیں کیوں زندگی سے محروم کردیا گیا۔ انہیں جنگوں کا کیا فائدہ ہوا۔ وہ کہیں گے اگر ایسا ہی چلنا تھا تو وہ اپنی زندگی کا حساب کس سے مانگیں۔ جنگ عظیم ون اور ٹو کے بعد یورپ میں اینٹی وار تحریکیں چلیں۔ ڈرامے لکھے گئے۔ ناول لکھے گئے۔ فلمیں بنائی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دوسری جنگ عظیم لڑی گئی جو پہلی جنگ سے بھی زیادہ بھیانک ناک ثابت ہوئی۔

اس دنیا میں ایک ہی تحریک ہونی چاہیئے جس میں صرف یہ کہا جائے کہ جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی کئی جنگیں ہوئی۔ ان جنگوں کا کیا فائدہ ہوا۔ کیا کوئی ان جنگوں کا فائدہ بتا سکتا ہے؟ وہ تعلیم جو جنگی جنون پیدا کر رہی ہے۔ جو خونریزی کے جذبات ابھار رہی ہے۔ نفرت اور تعصب کو پیدا کر رہی ہے۔ ایسے خیالات اور افکار سے انسان کو اب آزادی حاصل کر لینی چاہیئے۔ ورنہ انسان اس طرح مرتے رہیں گے۔ انسان کو انسانی تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ فوجیوں کو ہیرو بنانے کی بجائے اسکالرز کو ہیرو بنائیں۔ لبرل دانشوروں اور سماجی کارکنوں کو اپنا ہیرو بنائیں۔ عبدالستار ایدھی کو اپنا ہیرو بنائیں۔ جو انسانیت پر یقین رکھتا تھا۔

جنگیں اب میدان جنگ سے نکل کر شہروں میں لڑی جا رہی ہیں۔ خطرناک ترین ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ خود کش حملے ہورہے ہیں۔ جنگوں کا دائرہ کار تمام دنیا تک پھیل گیا ہے۔ اب پاکستان محفوظ ہے اور نہ ہی امریکہ۔ یورپ نے تو جنگوں سے سبق سیکھا اور متحد ہوگیا۔ لیکن ظالم امریکہ اور روس کے جنگی جرائم اب بھی خوفناک ہیں اور ان دونوں کے پاس بے تحاشا ایٹمی ہتھیار ہیں جو اس زمین کو پانچ ہزار مرتبہ برباد کرسکتے ہیں۔ جنگیں اب بچوں کا کھیل نہیں رہی۔ اب ایٹمی اور بائیولوجیکل ہتھیار آگئے ہیں۔

پاکستان اور بھارت ایک ہی برصغیر کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی زبان اور کلچر ایک ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں آج بھی مسلمان بھارت میں رہتے ہیں۔ اس لئے بھارت اور پاکستان میں جنگی جنونیت کی فضا کو ختم کیا جائے۔ جنگی جنون سے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مسائل کا حل پر امن مذاکرات ہیں۔ اس لئے دونوں ملکوں کی زمہ داری ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے جان چھڑائیں۔ ایک دوسرے کے درمیان کلچرل تعلقات بڑھائیں۔ بھارت کے انسان پاکستان میں آئے اور پاکستان کے انسان بھارت جائیں۔ مذہبی لوگوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کے ملکوں میں آئیں جائیں۔ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں ختم کریں۔ اس زمین کو جنگ نہیں۔ امن اور محبت کی ضرورت ہے۔

دنیا کے عظیم دانشور اور مصنف نوم چومسکی درست کہتے ہیں کہ اس دنیا کو سب سے بڑا خطرہ نیوکلئیر ہتھیاروں سے ہے۔ پاکستان اور بھارت نیو کلئیر طاقت رکھنے والے ممالک ہیں۔ اس لئے دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ نیو کلئیر ہتھیاروں کی تباہی تصور سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ بات انسانیت کو سمجھنے کی ضروت ہے۔ آج درجنوں ملکوں کے پاس سینکروں ہزاروں نیو کلئیر ہتھیار ہیں۔ یہ چل گئے تو سوچیں کیا ہوگا؟ جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ان کو مل جل کر یہ ہتھیار تلف کر دینے چاہیئے۔ ورنہ دنیا خطرات کا شکار رہے گی۔ ایٹمی ہتھیار بنانا کوئی قابل فخر کام نہیں۔ سکینڈینیوین ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں۔ وہ دنیا کے خوشحال ترین ملک ہیں۔ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہم انسان اجتماعی خودکشی کی طرف جارہے ہیں۔ جنگ موت اور تباہی ہے اور یہی بات انسانی تاریخ چیخ چیخ کر سنا رہی ہے۔