جمہوریت پر چاند ماری جاری ہے


چیف جسٹس ثاقب نثار نے حال ہی میں عافیہ صدیقی کی امریکہ میں سزا کے خلاف درخواست یہ کہہ کر مسترد کی ہے کہ غیر ملکی عدالتوں کے فیصلوں پر رائے نہیں دی جا سکتی کیوں کہ اگر امریکی عدالتوں نے پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں کو مسترد کرنا شروع کر دیا تو ہماری عدالتوں کی کیا عزت رہ جائے گی۔ چیف صاحب کو یہ سنہرا اصول قومی عدالتی تناظر میں بھی برتنے کی ضرورت ہے۔ اس طرف بھی چیف جسٹس خود ہی گزشتہ دنوں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے سامنے شاہراہ عام کو کھلوانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے فیصلہ کو معطل کرتے ہوئے نشاندہی کر چکے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کے حکم کو چیف جسٹس نے اس نکتہ پر معطل کیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو سوموٹو حکم دینے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن چیف جسٹس کے سامنے لایا جانے والا مقدمہ چونکہ ملک کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی کے بارے میں تھا، اس لئے اس معاملہ میں دادرسی ہو گئی۔ لیکن ہائی کورٹ کا کوئی جج یہی اختیار کسی مجبور اور کم حیثیت فرد یا ادارہ کےبارے میں اختیار کرتا ہے تو ہو سکتا ہے متاثرہ شخص ’ انصاف ‘ حاصل کرنے کے لئے سپریم کورٹ تک جانے کی استطاعت ہی نہ رکھتا ہو۔ اسی حوالے سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی اختیار کو ہائی کورٹ کا کوئی جج کسی قانونی جواز کے بغیر استعمال کرسکتا ہے تو ایسی غلطی عدالت عظمیٰ کےجج یا چیف جسٹس سے بھی سرزد ہو سکتی ہے۔ اسی لئے سو موٹو کے حوالے سے فل کورٹ کی طرف سے واضح حدود کا تعین اور اس کے استعمال میں برد باری اور تحمل اختیار کرنا اس وقت ملک کے جمہوری و عدالتی نظام کی کامیابی کے لئے اہم ترین قدم ہو گا۔

اصل نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف نےاگر سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی ہے تو اسے جمہویت کے لئے ان کی خدمت سمجھا جائے گا یا اسے سیاسی عاقبت نااندیشی قرار دے کر مسترد کیاجانا چاہئے۔ اصولی طور پر تو نواز شریف کے اس طرز عمل کی تحسین ہونی چاہئے اور وزیر اعظم بننے والے ہر شخص کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ وہ فوج یا عدالتوں کو پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت کرنے اور عوامی نمائیندوں کے احترام کو تار تار کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس معاملہ میں سیاست دان تو اپنی مصلحت بینی اور سیاسی دشمنی کے اسیر بن کر اصولی جمہوری بحث کا حصہ بننے سے معذور ہو چکے ہیں لیکن جب ملک کے بیشتر دانشور،سیاسی تجزیہ نگار اور جمہوریت کی بحث کو دوٹوک الفاظ میں عوام کے حق حکمرانی کے غیر مشروط احترام کا معاملہ سمجھنے اور اسے اسی طرح پیش کرنے میں ناکام ہونے لگیں تو سوچنا چاہئے کہ اس ملک میں جمہوریت سے کیا مراد لی جا رہی ہے اور اس بحث کو درست سمت میں موڑنے کے لئے کیا اقدام ضروری ہے۔

نواز شریف یا دیگر سیاست دانوں کی بدعنوانی اور بد عملی کو بنیاد بنا کر جمہوری روایت اور اصول کو مسترد کرنے یا اس کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کی کوئی کوشش ملک میں جمہوری عمل کےتسلسل کے لئے درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس وقت یہ صورت پیدا ہو چکی ہے کہ جمہوری روایت کی بات کرنے والے کو بدعنوان سیاست دانوں کا تنخواہ دار قرار دے کر معاملہ کو الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی جمہوریت پسند کسی قسم کی بدعنوانی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن مالی بدعنوانی کے ایک خاص معاملہ کو موضوع بحث بناتے ہوئے اگر کچھ عناصر جمہوریت کو غیرضروری اور ناقص قرار دینے کی کوشش کریں اور سیاسی، انتظامی اور قانونی بداعتدالی کو مالی بدعنوانی کی طرح اہم سمجھنے اور اس کے تدارک کے لئے سرگرم ہونے سے گریز کریں تو اسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے خزانے سے چوری ناقابل قبول ہے اور ایسے بدعنوانوں کو ضرور کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے لیکن عوام کے جمہوری اختیار پر ڈاکہ ایک ایسا جرم ہے جس پر خاموشی ناقابل معافی گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ سچ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جس الزام کا سامنا اس وقت شریف خاندان کو ہے کل تک بھٹو خاندان اور آصف زرداری اسی قسم کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ یادش بخیر یوسف رضا گیلانی کو آصف زرداری کی کرپشن کا تحفظ کرنے کےجرم میں ہی 2012 میں وزارت عظمی سے معزول کیا گیا تھا حالانکہ اس وقت زرداری ملک کے صدر تھے۔ اسی طرح ہر فوجی آمر نے سیاست دانوں کی بدعنوانی کا راگ الاپتے ہوئے ہی ہر سول حکومت کو برطرف کیا تھا۔ حتیٰ کی آئین کی شق 58 ٹو بی کے تحت سویلین صدور نے بھی وزرائے اعظم کو فارغ کرنے کے لئے یہی عذر تراشا تھا۔ اب تک یہ بحث شروع نہیں کی جا سکی کہ کرپشن بڑا الزام تھا یا آئین شکنی اور حلف سے غداری بڑا جرم تھا۔ ملک کے درجنوں جج پی سی او کے تحت حلف لے کر خود بھی آئین شکنی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب اس بحث کو سیاست دانوں کی بدعنوانی سے علیحدہ کرنے اور ملک کے معاملات پر عوام کے مکمل اختیار کے بنیادی جمہوری حق کو تسلیم کروانے کے اصول پر استوار کرنا اہم ہے۔

بدعنوانی کا معاملہ تو نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلہ میں بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ جج بشیر احمد نے یہ قرار دینے کے بعد کہ نیب سرکاری فنڈز میں خرد برد کا کوئی الزام ثابت نہیں کرسکی، ملزمان کو طویل سزائیں دی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ قانون کے ساتھ کھلواڑ کے اس پہلو اور اس کے پس پردہ قوتوں اور عوامل کا بھی ذکر ہوجائے۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ کی آڑ میں عوام کے حقوق کی دست برد اور جمہوریت کو تماشہ بنانے کا کھیل اب ختم ہونا چاہئے۔ تاہم اس مقصد کے لئے ملک کے سوچنے سمجھنے والے طبقہ کو واضح تصویر دیکھ کر رہنمائی کرنے کا کردار نبھانا ہوگا۔ سیاست میں غلطیوں اور ٹائمنگ کے غیر ضروری مباحث کی بجائے یہ کہنے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ انتخاب میں عوام جو ووٹ ڈالتے ہیں، وہ ڈالے جانے سے پہلے ہی مقدس نہیں ہوتا بلکہ ان کے نتیجہ میں جو لوگ بھی منتخب ہو کر آتے ہیں، ان کے حق حکمرانی سے انکار بھی اس تقدیس کو مجروح کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali