جمہوریت پر چاند ماری جاری ہے


نواز شریف کی نااہلی کے سال بھر بعد احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے بعد شروع ہونے والے مباحث میں یہ نکتہ غیر واضح ہوتا جارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم یاا ن کی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کی غلطیاں گنواتے ہوئے، اداروں کے ساتھ نواز شریف کے اختلافات، ڈان لیکس پر پیدا ہونے والا تنازعہ اور خارجہ امور پر اختلاف رائے کا حوالہ کیوں ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر یہ حوالہ حالات کو سمجھنے یا مکمل تصویر دیکھنے کے لئے کیا جاتا ہے تو مبصر یہ بتانے سے کیوں گریز کرتے ہیں کہ اگر ایک منتخب وزیر اعظم ملک کی مسلح افواج اور دیگر اداروں سے اپنے طریقے، اصولوں اور نقطہ نظر کے مطابق طرز عمل اختیار کرتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ جب بھی جمہوریت کا نام لیا جاتا ہے تو اس سے یہی مراد لی جانی چاہئے کہ عوام جس گروہ یا پارٹی کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں اکثریت عطا کریں، وہ اپنے منشور، پروگرام اور سوچ کے مطابق تمام امور طے کرنے میں آزاد ہو۔ اس تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو فوج کے سربراہ سے مکمل اطاعت کا مطالبہ کرنے کی جو ’غلطی‘ نواز شریف سے منسوب کی جاتی ہے، اسے تو ہر منتخب لیڈر کو دہرانا چاہئے۔ بلکہ انتخابات کے موجودہ موسم میں ایک سابق وزیر اعظم کو سزا ملنے کے بعد اس بات پر بغلیں بجانے کی بجائے کہ کئی باقی سیاسی لیڈر وں کے راستے کی بڑی رکاٹ دور ہو گئی، محض زبانی دعویٰ کی حد تک ہی سہی لیکن یہ اعلان تو سامنے آنا چاہئے کہ اگر ان میں سے بھی کسی کو اقتدار مل گیا تو وہ بھی نواز شریف ہی کی طرح یہ مطالبہ کرے گا کہ سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی مداخلت بند کی جائے اور عدالتیں امور مملکت چلانے اور حکومت کے کام میں روزانہ کی بنیاد پر مداخلت کرنے کا کام کرنے کی بجائے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے اور عدالتی نظام کو بہتر و مؤثر بنانے اور مقدمات کی طویل فہرست کو کم کرنے کے لئے زیادہ مستعدی سےکام کریں۔

موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ روشن مثال قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہفتہ اتوار کو چھٹی کے باوجود کام کرتے ہیں۔ تاہم نہایت احترام سے یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ عدالتوں میں مقدمات پر فیصلوں کا طویل انتظار صرف چند ججوں کے ہفتہ اتوار کو کام کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لئے چیف جسٹس کو یہ جائزہ لینا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ آئین کی شق 184(3) کے تحت ملنے والے اختیار کو استعمال کرنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں اور روٹین میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات نمٹانے کو کتنا وقت اور صلاحیت دے پاتے ہیں۔ سو موٹو اختیار کے تحت کئے جانے والے اقدامات سے ہو سکتا ہے کسی ایک آدھ معاملہ میں کسی شہری کے حقوق کا ازالہ کرنے کا کام بھی ہؤا ہو لیکن عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سامنےآنے والی سپریم کورٹ کے ججوں نے اس اختیار کو درحقیقت سیاسی معاملات میں اپنی دلچسپی اور رائے ظاہر کرنے اور وزرائے اعظم کو دھمکانے اور معزول کرنے کے لئے ہی استعمال کیا ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ بھی طے کرنا ہے کیا منتخب وزرائے اعظم کے خلاف اقدامات کرنے سے واقعی آئینی فرائض پورے کئے جارہے ہیں یا اس سے حاصل ہونے والی شہرت اور پبلسٹی کا ’چسکا‘ دراصل اعلیٰ ترین عدالت کے بعض ججوں کے لئے ایک لت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بہتر ہو گا یہ فیصلہ خود سپریم کورٹ ہی کرلے۔ اس مقصد کے لئے فل کورٹ کا سیشن بلا کر سو موٹو اختیار کی آئینی حیثیت، حدود و قیود اور ضابطہ و طریقہ کار کیا جائے۔ اس حوالے سے متعدد قانون دان اور بار کونسلیں بھی تجویز دے چکی ہیں اور یہی طریقہ اس متنازع اختیار کے بارے میں قابل قبول راستہ نکالنے کا بہتر حل بھی ہوسکتا ہے۔

اس وقت ملک میں جن سیاسی مباحث پر زیادہ تند وتیز گفتگو ہوتی ہے یا رائے کااظہار سامنے آتا ہے، ان میں سپریم کورٹ سو موٹو اختیار استعمال کرتے ہوئے ’فریق‘ بنی دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی فعال جمہوریت کے لئے پسندیدہ نہیں ہو سکتی ۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت برائے نام ہے جسے سیاسی رہنما اختیار حاصل کرنے اور بدعنوانی کے ذریعے دولت سمیٹنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو بھی یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اگر سیاست دانوں کی بدعنوانی کی وجہ سے حکومت کی بطور ادارہ کارکردگی متاثر ہوتی ہے تو سپریم کورٹ سمیت ریاست کے باقی اداروں کو بھی اس ’غیر فعال‘ جمہوری نظام میں من مانی کرنے اور آؤٹ آف لائن جانے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہونا چاہئے کہ اگر سپریم کورٹ نے سو موٹو اختیارکے بارے میں اپنا طرز عمل تبدیل نہ کیا اور بنیادی حقوق کے نام پر حاصل اس ختیار کو سیاست اور جمہوریت پر چاند ماری کرنے کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو جس طرح 2007 میں فوجی استبداد کے ستائے ہوئے لوگوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں عدلیہ بحالی تحریک کی حمایت کی تھی تاکہ میں صحت مند عدالتی اور جمہوری روایت بحال ہو سکے، اسی طرح مستقبل میں عدالتی استحصال اور جبر کےخلاف ’ہمیں عدالتوں کے انصاف سے بچاؤ‘ قسم کی کوئی تحریک منظر عام پر نہ آجائے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali