نواز شریف کا خط پاکستان کے عوام کے نام


آداب! امید ہے آپ بھی پریشانی اور بے یقینی کی صورتحال کے باوجود میرے بارے میں فکرمند ہوں گے یا کم از کم میرے حالات زیر بحث لاتے ہوں گے۔

میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں، چالیس سال پیچھے جائیں مارشل لا کا دور تھا میں سیاست میں آکر کچھ کرنا چاہتا تھا، یہ سچ ہے کہ اس سے پہلے بھٹو کے دور میں ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوئی تھیں جس کے ردعمل میں میرے والد صاحب نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سیاست کے میدان میں ہی اس کا جواب دیں گے۔ انہوں نے مجھے ذہنی طور پر تیار کیا، میں نے بھٹو کے مخالف اصغر خان کی تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی، لیکن زیادہ عرصہ یہ تعلق برقرار نہ رہ سکا۔ جنرل ضیاء الحق نے حکومت کا کنٹرول ہاتھ میں لیا تو ہمیں اس تک رسائی کے راستے ڈھونڈنے پڑے۔ کچھ کوشش کے بعد 1981 میں میرے لیے اہم ذمہ داری پنجاب کی وزارت خزانہ مل گئی۔ یہ میری پہلی شناخت بنی۔ 1985 کے غیرجماعتی الیکشن میں کامیاب ہوا لیکن جنرل ضیاء میرے بارے میں اچھے تاثرات نہیں رکھتے تھے، انہیں بھی کسی طرح رام کیا گیا اور پھر قرعہ میرے نام نکلا۔ پنجاب کا صوبہ مجھے سونپ دیا گیا۔

میں آپ کے سامنے آج اعتراف کرتا ہوں کہ ہاں میں نے اسٹیبلشمنٹ سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ ان کے سہارے سیاست کی سانپ سیڑھی کے کھیل میں آگے تک گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ 1988 میں میرا راستہ صاف تھا لیکن بے نظیر بھٹو کو باری مل گئی۔ میں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کے مشورے کو مسترد کر دیا اور پنجاب میں ہی رہ کر آئندہ کی تیاری کی۔

میں نے آپ خصوصاً پنجاب والوں کی خدمت کی، یہ بتانے والی بات نہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے 1990 میں موقع دیا اور پھر 1997 میں دوبارہ قسمت نے ساتھ دیا۔ میں نے صرف اتنا کیا کہ معاملات کو وزیراعظم کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی، ہاں میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اداروں کے نئے سربراہوں سے جی حضوری کا تقاضا ضرور کیا۔ لیکن وزیراعظم کا حق بنتا ہے وہ چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ اس میں کیا کوئی غلط بات تو نہیں کی۔

12 اکتوبر 1999 کا دن آیا، میرے نزدیک کوئی غلط کام نہیں کیا گیا، لیکن جس انداز سے مجھے اقتدار سے باہر کیا گیا الزامات لگا کر مقدمہ چلایا، سزا سنائی اور جیلوں میں قید کیا۔ میرے سعودی دوستوں کا اللہ بھلا کرے انہوں نے مجھے یہاں سے نکالا۔ ورنہ شاید بھٹو جیسی داستان تیار ہو چکی تھی۔

یہ سب باتیں آپ کے علم میں ہیں اور آپ لوگ بالکل نہیں بھولے ہاں اتنا ضرور ہے کہ کچھ جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو میرے نظریات، سوچ اور اقدامات سے اختلاف ضرور رہا ہے اور اب بھی ہو گا۔

میں نے پہلے بھی تسلیم کیا کہ مجھ سے بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف غیر ضروری اقدامات ہوئے اس میں مشیروں کے غلط مشوروں کا بھی عمل دخل رہا، لیکن یہ درست ہے کہ فیصلے میں نے ہی کئے، ان کے سامنے بھی اس کا اعتراف کر چکا،

آج آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بے نظیر بڑی وسیع القلب خاتون تھیں انہوں نے نہ صرف مجھے معاف کردیا بلکہ کچھ ذاتی غلطیوں بھی تسلیم کر لیں۔ ہم نے ایک اچھے انداز سے ملک میں جمہوریت کیلئے مل کر چلنے اور غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔

آپ لوگوں نے اس کی تائید بھی کی اور اسے سراہا مگر ان قوتوں کو خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دی۔ ہم دونوں کو ٹارگٹ بنا لیا۔

بی بی کا جارحانہ رویہ ان کی جان کا دشمن بن گیا، وہ حقیقی معنوں میں دلیر اور نڈر خاتون تھیں۔ میں نے بی بی سے بہت کچھ سیکھا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھا آپ کو شاید ایسا لگ رہا ہوگا کہ میں خوش تھا۔ نہیں میں اس روز اپنی سیاسی زندگی میں غمگین ترین لمحات سے گزر رہا تھا۔ میں اندر سے خوفزدہ ہوگیا کہ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ مجھے بھی بے نظیر جیسے انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔

آج میں آپ کے سامنے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ سندھ میں جا کر بی بی کے کارکنوں کو پرسہ دینے کے دوران ایک عجیب سی تقویت ملی، جس نے مجھے مضبوط بنایا اور ایک نیا حوصلہ بھی دیا۔

میں الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کا خواہشمند تھا اور ذہنی طور پر اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے بھی تیار ہوگیا۔

آپ کو ایک بڑی اندر کی بات بتانے جا رہا ہوں، آصف زرداری کو میں ملک کا سب سے ہوشیار اور زیرک سیاستدان سمجھتا ہوں لیکن میں اس شخص کو آج تک نہیں سمجھ پایا، یہ بات نہیں کہ وہ ہمارا مخالف ہے بلکہ وہ کیا سوچ رہا ہوتا ہے اور کیا کرنے جائے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میرے نزدیک چند ایک اقدام کوچھوڑ وہ جتنی بھی چالیں چلے، ہمیں بعد میں جا کر اندازہ ہوا، میرے کئی جہاندیدہ مشیر بھی انہیں سمجھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہمیں زرداری سے دوستی اور دشمنی دونوں کرتے بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔

اب اصل موضوع پر آئیں پچھلے دو سال سے میرے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے آپ کے سامنے ہے۔ چار سال عمران خان نے ہمیں مصروف رکھا، ایک بات ہے کہ اس کے استاد بڑے تیز تھے، جنہوں نے ہمیں حکومت کرنے میں ٹھیک ٹھاک رکاوٹیں ڈالیں۔ اگرچہ زرداری صاحب کے ساتھ بھی اداروں نے بہت کچھ کیا لیکن وہ وزیراعظم کی قربانی دینے کے باوجود وقت نکال گئے۔

میرے معاملے میں صف بندیاں مختلف محاذوں پر کی گئیں، آج میں یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ میں نے اپوزیشن سے کچھ فاصلہ رکھا، کئی معاملات میں زیادہ اعتماد میں نہیں لے سکا، اپنے قریبی مشیروں اور رفقا کے مشوروں پر کبھی کبھی عمل نہیں کیا۔ میرے سامنے ملکی معاملات تھے، حکومتی امور تھے، پارٹی میں چلنے والی ہلکی پھلکی سازشیں بھی تھیں۔ اداروں کی جانب سے دیا جانے والا ٹف ٹائم اگرچہ میرے لیے نیا نہیں تھا لیکن میں نے کئی مواقع پر اپنی سیاسی شکست کو بڑی خندہ پیشانی سے تسلیم کیا، خیبر پختونخوا میں حکومت نہ بنا کر تحریک انصاف کیلئے راہ ہموار کی۔ اب بلوچستان میں حکومت جس انداز سے ختم کرائی گئی اور سینیٹ کے الیکشن ہوئے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔

پانامہ کیس میں جیسے بُری طرح مجھےاور میرے خاندان کو گھسیٹا گیا وہ میں ہی جانتا ہوں میرا خاندان حکمران ہونے کے باوجود اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ میری معمر والدہ جن کی دعاؤں سے آج تک مجھے کامیابیاں ملیں اور بہت سی مشکلات میں سے باہر نکلا۔ وہ بھی اس کیس پر غمزدہ تھیں۔ میری اہلیہ جو ہمیشہ میرا حوصلہ بنتی تھی اس کی ہمت بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ علیل ہوگئی، آج زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے، میرے لیے یہ ایک اذیت ناک مرحلہ ہے۔

آپ سوچتے ہوں گے میں اتنے بڑے عہدے پر بیٹھا رہا، تین بار وزیراعظم رہنے والا، لاکھوں کروڑوں کے دلوں کی دھڑکن اندر سے اتنا کمزور پڑگیا۔ فطری عمل ہے میں بھی انسان ہوں۔

اس ساری صورتحال میں خود کو سنبھالا، میرے سامنے آپ سب کے چہرے اور وہ امید بھری نگاہیں آگئیں جنہیں ہمیشہ میں اپنی تقویت سمجھتا آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں ، میرے موقف یا بیانیے کو مخالفین بڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں میرے غلط فیصلے اقدامات، اورشاید میری کوتاہ نظری ہی یاد ہو، میری کوئی ہٹ دھرمی کوئی غلط بات، دل میں کھٹکتی ہو، انہیں لگتا ہو میں نے بڑی کرپشن کی اور اربوں کی لوٹ گھسوٹ کر گیا ہوں۔ لیکن میں نے آپ کے لیے ،اس ملک کے لیے اگر کچھ کیا ہے، جس کی تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہتا کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کو ذھنوں سے کیسے نکالا جاسکتا ہے۔

آج مجھے حکومت سے نکال باہر کیا گیا، مجھے پارٹی قیادت سے بھی ہٹا دیا ہے، مقصد صاف ہے کہ میں نظر نہ آؤں۔ آخر کتنا بڑا جرم کیا، مجھے تو بھٹو اور بے نظیر سے بھی بڑی سزا دے دی۔ ایسے لگتا ہے بس جان لینا باقی رہ گیا۔ آپ فیصلہ کریں، میں آج الیکشن سے باہر ہوں، اگلی حکومت میں بھی نہیں آ سکتا، لیکن میں نے اگر کچھ کیا ہے تو کیا اس کی سزا بنتی ہے۔ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کی جماعت کو بھی اس کے ساتھ نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کی خدمت کرنے والے میرے ساتھیوں کا کیا قصور یہی ہے کہ وہ میرے دست وبازو ہیں۔ انہیں مجھ سے کاٹ کر الگ کیا جارہا ہے۔ مجھے وطن واپسی پر گرفتار کر لیا جائے گا۔  میں آج آپ کے سامنے تسلیم کرتا ہوں۔ غلطیاں ہوئی ہیں خدارا جمہوریت آپ سے ہے اور آپ کی وجہ سے ہم لوگ ہیں۔ اگر آپ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تو پھر کوئی بھی آجائے گا اور آپ ہم سب اصل کھیل سے باہر ہوں گے۔ امید ہے میری عرضداشت آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

خیراندیش

میاں محمد نواز شریف

جاتی امرا رائے ونڈ (حال مقیم لندن)

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar