تطہیر کی شاعری اور تخلص کی تلاش


\"khurram

کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ سے ہماری کلاس فیلو تطہیر صدیقی نے اردو شاعری میں اپنی آمد کی خوش خبری سناتے ہوئے تمام دوستوں سے گزارش کی ہے کہ ایک تو انہیں میٹرک کی اردو کی کتاب ارسال کی جائے اور دوسرے ایک اچھے تخلص کے انتخاب میں ان کی مدد کی جائے۔

اس پیغام کے ساتھ انہوں نے اپنی حالیہ شاعری کے کچھ نمونے لکھ بھیجے ہیں جو مندرجہ زیل ہیں:

سوگ

مرے جنازے پہ آو گے اگر چپکے سے آجانا

نرگسی پھول لانا، بھول کر بھی بھول نہ جانا

سنو اکیلے آنا سرخ رومال جیب میں رکھ کر

قسم ہے اپنے آٹھ بچے ہرگز ہرگز ساتھ نہیں لانا

غزل

تنہائی ہے چپ کا دامن ہم نے تھاما ہے

\"sauda\"پھر بھی کس نے اتنا شور مچایا ہے

اک ماں کی چیخ اور بچے کا رونا

بس مطلب ہم لوگوں کو ستانا ہے

جب افسانہ ختم ہوا تب آئے ہو آخر میں

کہاں سے بولو شروع کروں کیا کیا سنانا ہے

دنیا ہماری مٹ گئی پھر بھی ہم بچ گئے

ہم زندہ رہ گئے لیکن کیا یہ بھی جینا ہے

تطہیر شاعری چاہے تمہاری قافیہ، ردیف، وزن، خیال، صنف اور پیرائے سے بالاتر ہو لیکن تمہارا وجود چمنستانِ اردو میں ایک تازہ شگوفہ کی مانند جسے پھلنے پھولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ حاسدین یقیناً تمہیں طنز، مذاق اور تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن تم بھی باز نہ آنا میرا مطلب ہے ہمت نہ ہارنا۔ اپنی بھابی سے ہی سیکھ لو جب پندرہ سال پہلے ہمیں زبردستی پھیکی چائے پلانی شروع کی تھی تو بہت عذاب لگتا تھا اور ہم بھی بہت پھڑپھڑائے تھے لیکن اب دیکھو کیسی عادت ڈال دی ہے کہ میٹھی چائے حلق سے اتارنا مشکل ہوجاتی ہے۔ آج کل کوشش کر رہی ہیں کہ کھانوں میں نمک بھی بند کردوں۔ تمہاری شاعری کے طفیل امید ہے یہ مرحلہ بھی آسان ہوجائے گا۔

\"Firaq-Gorakhpuri\"

میٹرک کی اردو کی کتاب دوبارہ پڑھنے کا خیال اچھا ہے اردو شاعری کرنے اور سمجھنے کے لئے بس اتنے ہی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاف کرنا میں نے نا صرف وہ کتاب بلکہ نویں دسویں کا تمام کورس میٹرک کا رزلٹ آنے سے پہلے ردی میں بیچ کر ان پیسوں سے پیپسی پی لی تھی۔

تم نے بڑا اچھا کیا کہ ابھی آمد کا سلسلہ شروع نہیں ہوا اور پہلے سے تخلص ڈھونڈنے لگیں۔ تمہارے شوہرِ نامدار اور ہم سے دو سال سینئر سید مطاہر حسین رضوی کے متعلق تو پورا کالج ہی جانتا تھا کہ وہ بھی ہمیشہ سے ایسے ہی دور اندیش، منصوبہ بند اور منظم رہے ہیں ابھی ایم بی بی ایس کے سال اول میں ہی تھے تو لوگوں کو بتاتے پھرتے کہ گریجویشن کے فوراً بعد کسی ایرانی نژاد نجیب الطرفین سید گھرانے میں شادی فرمائیں گے۔ ولیمہ کے ڈی اے لان میں ہوگا اور دلہن کا میک اپ بھابیز سے کرایا جائے گا اور پھر دو دو سال کے وقفے سے تین لڑکے اور دو لڑکیوں کی ولادت ہوگی جن کے ناموں، تعلیم، پیشوں اور مستقبل کے متعلق وہ پہلے ہی سے پلاننگ کرچکے تھے۔ یہ الگ بات کہ گریجویشن کے دس سال تک ٹھوکریں کھانے کے بعد ٹکرائے بھی تو \’صدیقی\’ سے اور اللہ رکھے جو واحد لڑکا ہوا وہ بھی نیوزی لینڈ پہنچ کر مصنوعی تولید کے ذریعے۔ اور ہاں یاد ہے جس دن بارات ملیر جعفر طیار سوسائٹی سے کورنگی ڈھائی نمبر گئی تھی تو شہر میں فسادات ہو رہے تھے اور تمام شادی ہالز اور بیوٹی پارلرز بند تھے۔ وہ اپنی سوچی ہوئی اسپیشلٹی یعنی کارڈیک سرجری میں جانے کے بجائے بس فیملی فزیشن بنے اور تم بھی ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہاؤس وائف ہی رہ گئیں کارڈیالوجسٹ نہ بن سکیں۔

تو تطہیر بات ہو رہی تھی تمہارے لئے ایک انوکھا، البیلا، اچھوتا اور نرالا تخلص ڈھونڈنے کی۔ چاہے تم شاعری سنجیدگی سے کرو یا نہیں لیکن تخلص کو مذاق نہ سمجھنا۔ دیکھو کتنے ہی مشہور شعراء ہیں جن کو اب صرف تخلص سے یاد کیا جاتا ہے اور کسی کو ان کا اصل نام یاد نہیں۔ آج کس کو پتہ ہوگا کہ ابن انشاء کا نام شیر محمد تھا جبکہ جوش ملیح آبادی- شبیر حسن خان، ادا جعفری- عزیز جہاں اور احمد فراز- سید احمد شاہ تھے!

اکثر تخلصات پر غور کرو تو وہ طبی اصطلاحات یا نفسیاتی کیفیات نکلیں گی مثلاً درد، داغ، جگر، ذوق، بیدل، عدم، نشتر، شعور، آبرو، آرزو، مینائی، بیخود، بسمل، فانی، محروم، شفا، شاد، وجد، کیفی، قتیل، بے کل، ساحر، ساغر وغیرہ وغیرہ

\"frock01\"
اب تم سودا ہی کو لو جو میر کے عہد میں بہت بڑے شاعر تھے۔ تم اس کو غلطی سے وہ سودا نہ سمجھ لینا جو ہم بچپن میں دکان سے لاتے تھے۔ اصل میں ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب جو درحقیقت یونانی بقراط اور جالینوس کے نظریات پر مبنی تھی کے مطابق ہر شئے اور ہر انسان کی چار تاثیریں اور چار ہی مزاج ہوتے ہیں سودا، صفرا، بلغم اور دم (خون) سودا مستقل غم، حسرت و یاس اور نا امیدی میں ڈوبے رہنے کے ذہنی مریض کو کہتے ہیں۔ یہ تو کہیں انیسویں صدی میں جب سائنسی طب کا آغاز ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ مزاج، تاثیر وغیرہ سب بکواس ہے۔

تم نے فراک لکھا۔ بہت دیر غور کرنے کے بعد جب سمجھا تو دیر تک ہنستا رہا۔ یہ وہ فراک نہیں جو بچیاں اسکول پہن کر اسکول جاتی ہیں بلکہ فراق گورکھپوری جن کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا کا تخلص ہے۔تاہم تطہیر تہمارے لئے فراک کی نسبت سے جھگا بہت مناسب تخلص رہے گا۔ اور تمہارے فن اور شخصیت پر جو ضخیم کتاب لکھی جائے گی اس کا عنوان اسی نسبت سے \”جھگا، جھاگ اور جھنگ\” کیسا اچھا رہے گا۔ اب یہ سوال نہیں کرنا کہ جھنگ کی کیا تک ہے اس میں۔ باقی بحث کیا منطق کی روشنی میں ہو رہی ہے۔ منطق عامیانہ طبیعتوں کے لئے ہے، شاعر تلمیذالرحمن ہوتے ہیں، منطق کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔ اس وقت تمہاری شاعری کے امکانات پر غور کرتے ہوئے اس قدر سرشاری طاری ہو گئی ہے کہ خود میری طبیعت میں بھی آمد کے آثار ہیں۔۔ عرض کیا ہے، جھگا جگ مگ تھیوے، جھنگ جگ جگ جیوے۔۔۔ الخ۔ خیر تو ذکر فراق صاحب کا تھا، اردو شاعری روایتی طور پر فراق یعنی محبوب سے دوری اور وصال یعنی محبوب سے ملاقات کے گرد گھومتی ہے۔ کیونکہ مولوی حضرات ہمیشہ شاعروں، شاعری، عشق و محبت، وفا، ارمان، ایفائے عہد وغیرہ کے خلاف ہوتے ہیں لہٰذا جب ان کا زور چلتا ہے تو شعراء اپنی جان بچانے کے لئے انہی عاشقانہ کیفیات کو جھوٹ موٹ خدا سے منسوب کر کے اسے عشقِ حقیقی کی شاعری کہتے ہیں۔ ویسے تم غور کرو تو حالیہ دور میں زیادہ تر شعراء اپنے ہی اصل نام پر ایک ڈوئی (لکڑی کا چمچہ) بنا کر اسے تخلص قرار دیتے ہیں۔ اقبال، فیض، پروین شاکر ان سبھی نے یہی کیا تمہارے نام میں تو کئی خواص مجتمع ہوگئے ہیں ایک تو مختصر اور دوسرے اس کے طبی معنی موجود ہیں۔ ڈایالیسس کو اردو میں تطہیر ہی کہا جائے گا۔ اے لو تمہارے لئے چند اشعار لکھ دیتا ہوں بے شک اپنے نام سے فیس بک پر ڈال دینا

\"Frock02\"مسیحا اب دوا کی الٹی یہ تاثیر ہوتی ہے

محلے بھر کی الجھن مجھ کو دامن گیر ہوتی ہے

کبھی دل چاہتا ہے میٹ ڈالوں دونوں عالم کو

ذرا جو میری مرضی ہونے میں تاخیر ہوتی ہے

مصیبت ہے نگاہِ ناز ترچھی ہو کہ سیدھی ہو

مرے دل میں اتر کر کیوں ہمیشہ تیر ہوتی ہے

ستانے کا، میاں کو آزمانے کا ارادہ ہے

وہ شب جب دن کو میرے گردوں کی تطہیر ہوتی ہے

اچھا اکثر شعراء تخلص کے ساتھ علاقے کی نسبت لکھنا پسند کرتے ہیں جیسے بھوپالی، سیالکوٹی، لاہوری وغیرہ اب جو کرائسٹ چرچ کا ترجمہ کرتا ہوں تو تمہارا تخلص بنتا ہے تطہیر مسیحی گرجا گروی۔ نا بھئی نا اس تخلص کے ساتھ تو پاکستان تو ایک طرف نیوزی لینڈ میں بھی تمہاری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے کوئی بھی مرتد کہہ کر مار دے گا۔ سنا ہے آج کل لوگ اسٹیو جاب کے والد عبداللہ \’جان\’ جندالی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ کورنگی ڈھائی نمبر کی مناسبت سے کورنگوی ہو سکتا ہے اور جچے گا بھی لیکن آج کل لوگ ساری عمر کورنگی میں رہنے پر فخر کرنے کے بجائے شرمندہ ہوتے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو یہی بتاتے ہیں کہ ڈیفینس میں پلے بڑھے تھے۔ کل رات خود مطاہر بھائی کا بڑا ناراض پیغام ملا کہ وہ ملیر میں نہیں بلکہ ملیر ڈیفینس میں رہا کرتے تھے حالانکہ جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اس زمانے میں ملیر ڈیفینس کا کوئی وجود نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments